April 25, 2024

قرآن کریم > الفاتحة >Surah 1 Ayat 0

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے 

نحمدہ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْ لِیْ اَمـْرِیْ  وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ

            سورۃ الفاتحہ اگرچہ قرآن حکیم کی مختصر سورتوں میں سے ہے  ، اس کی کل سات آیات ہیں،  لیکن یہ قرآن حکیم کی عظیم ترین سورت ہے۔  اس سورئہ مبارکہ کو اُمّ القرآن بھی کہا گیا ہے اور اساس القرآن بھی۔  یعنی یہ پورے قرآن کے لیے جڑ،  بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔  یہ الفاتحہ کس اعتبار سے ہے؟ فَـتَحَ یَفْتَحُ کے معنی ہیں کھولنا۔  چونکہ قرآن حکیم شروع اس سورت سے ہوتا ہے لہٰذا یہ  سورۃ الفاتحہ  (The Opening  Surah  of the Quran)  ہے ۔ اس کا ایک نام  الکافیہ  یعنی کفایت کرنے والی ہے،  جبکہ ایک نام  الشافیہ  یعنی شفا دینے والی ہے۔   دوسری بات یہ نوٹ کیجیے کہ یہ سورئہ مبارکہ پہلی مکمل سورت ہے جو رسول اللہ  پر نازل ہوئی ہے۔  اس سے پہلے متفرق آیات نازل ہوئیں۔  سب سے پہلے سورۃ العلق کی پانچ آیتیں،  پھر سورئہ نٓ یا سورۃ القلم کی سات آیتیں،  پھر سورۃ المزمل کی نو آیتیں ،  پھر سورۃ المدثر کی سات آیتیں اور پھر سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں نازل ہوئیں۔  لیکن یہ پہلی مکمل سورت ہے جو نازل ہوئی ہے رسول اللہ   پر۔ سورۃ الحجر میں ایک آیت بایں الفاظ آئی ہے :

  (وَلَقَدْ اٰتَیْنٰـکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ )

 «ہم نے (اے نبی !) آپ کو سات ایسی آیات عطا کی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن»۔  

سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں دوہرا دوہرا کر پڑھی جاتی ہیں،  نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہیں ، اور یہ سورئہ مبارکہ خود اپنی جگہ پر ایک قرآنِ عظیم ہے۔  صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ   نے ارشاد فرمایا:

 «اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ ھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیُّ وَالْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ الَّـذِیْ اُوْتِیْتُہ»  

  سورۃ  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ ہی  سبع مثانی  اور قرآن عظیم  ہے جو مجھے عطا ہوئی ہے۔   

            تعداد کے اعتبار سے اس کی سات آیات متفق علیہ ہیں۔  البتہ اہل علم میں ایک اختلاف ہے۔  بعض حضرات کے نزدیک،  جن میں امام شافعی   بھی شامل ہیں،  آیت بسم اللہ بھی سورۃ الفاتحہ کا جزء ہے۔  ان کے نزدیک   (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت اور  (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ  غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّـیْنَ ) ساتویں آیت ہے۔  لیکن دوسری طرف امام ابو حنیفہ   کی رائے یہ ہے کہ آیت بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا جزء نہیں ہے،  بلکہ آیت بسم اللہ قرآن مجید کی کسی بھی سورۃ کا جزء نہیں ہے،  سوائے ایک مقام کے جہاں وہ متن میں آئی ہے۔  حضرت سلیمان  نے ملکۂ سبا کو جو خط لکھا تھا اس کا تذکرہ سورۃ النمل میں بایں الفاظ آیا ہے:   (اِنَّـہ مِنْ سُلَیْمٰـنَ وَاِنَّـہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) ۔  سورتوں کے آغاز میں یہ علامت کے طور پر لکھی گئی ہے کہ یہاں سے نئی سورۃ شروع ہو رہی ہے۔  اِن حضرات کے نزدیک (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ )  سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت اور  (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) پانچویں آیت ہے،  جبکہ (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ) چھٹی اور (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ )  ساتویں آیت ہے۔  جن حضرات کے نزدیک آیت بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا جزء ہے وہ نماز میں جہری قراء ت کرتے ہوئے ( بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) بھی بالجہرپڑھتے ہیں،  اور جن حضرات کے نزدیک یہ سورۃ الفاتحہ کا جزء نہیں ہے وہ جہری قراء ت کرتے ہوئے بھی بسم اللہ خاموشی سے پڑھتے ہیں اور (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ )  سے قراء ت شروع کرتے ہیں۔  

نماز کا جزوِ لازم

            اس سوره مبارکہ کا اسلوب کیا ہے؟ یہ بہت اہم اور سمجھنے کی بات ہے۔  ویسے تو یہ کلام اللہ ہے،  لیکن اس کا اسلوب دعائیہ ہے۔  یہ دُعا اللہ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ مجھ سے اس طرح مخاطب ہوا کرو،  جب میرے حضور میں حاضر ہو تو یہ کہا کرو۔  واقعہ یہ ہے کہ اسی بنا پر قرآن مجید کی اس سورت کو نماز کا جزوِ لازم قرار دیا گیا ہے،  بلکہ سورۃ الفاتحہ ہی کو حدیث میں  الصَّلاۃ  کہا گیا ہے ، یعنی اصل نماز سورۃ الفاتحہ ہے۔  باقی اضافی چیزیں ہیں،  تسبیحات ہیں،  رکوع و سجود ہیں،  قرآن مجید کا کچھ حصہ آپ اور بھی پڑھ لیتے ہیں۔  حضرت عبادہ بن صامت  سے مروی متفق علیہ حدیث ہے کہ رسول اللہ   نے ارشاد فرمایا: ((لاَ صَــلَاۃَ لِمَنْ لَّــمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ))  یعنی جو شخص (نماز میں) سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔  اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں یہ مضمون آیا ہے۔

            اس اعتبار سے بھی ہمارے ہاں ایک فقہی اختلاف موجود ہے۔  بعض حضرات نے اس حدیث کو اتنا اہم سمجھا ہے کہ آپ با جماعت نماز پڑھ رہے ہیں تب بھی ان کے نزدیک آپ امام کے ساتھ ساتھ ضرور سورۃ الفاتحہ پڑھیں گے۔  چنانچہ امام ہر آیت کے بعد وقفہ دے۔  امام جب کہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  تو اس کے بعد مقتدی بھی کہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  خواہ اپنے دل میں کہے۔  پھر امام کہے:  الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  تو مقتدی بھی دل میں کہہ لے: اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔  یہ موقف ہے امام شافعی   کا کہ نماز چاہے جہری ہو چاہے سری ہو،  اگر آپ امام کے پیچھے پڑھ رہے ہیں تو امام اپنی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا اور آپ اپنی پڑھیں گے اور لازماً پڑھیں گے۔

            امام ابو حنیفہ  کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے کہ امام جب سورۃ الفاتحہ پڑھے گا تو ہم  پیچھے بالکل نہیں پڑھیں گے،  بلکہ امام کی قراءت ہی مقتدیوں کی قراءت ہے۔  ان کا استدلال آیت قرآنی:  (وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَـہ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّـکُمْ تُرْحَمُوْنَ) (الاعراف) اور حدیث نبوی: ((مَنْ کَانَ لَـہ اِمَامٌ فَـقِرَاءَۃُ الْاِمَامِ لَـہ قِرَاءَۃٌ)) سے ہے۔  نیز اُن کا کہنا ہے کہ نماز باجماعت میں امام کی حیثیت سب کے نمائندے کی ہوتی ہے۔ اگر کوئی وفد کہیں جاتا ہے اور اس وفد کا کوئی سربراہ ہوتا ہے تو وہاں جا کر گفتگو وفد کا سربراہ کرتا ہے،  باقی سب لوگ خاموش رہتے ہیں۔

            اب اس ضمن میں ایک انتہائی معاملہ تو وہ ہو گیا جو امام شافعی کا موقف ہے کہ چاہے جہری نماز ہو چاہے سری ہو،  اس میں امام کے پیچھے مقتدی بھی سورۃ الفاتحہ پڑھیں گے۔  آپ کو معلوم ہے کہ ظہر اور عصر سری ّنمازیں ہیں،  ان میں امام خاموشی سے قراءت کرتا ہے،  بلند آواز سے نہیں پڑھتا،  جب کہ فجر،  مغرب اور عشاء جہری نمازیں ہیں،  جن میں سورۃ الفاتحہ اور قرآن کا مزید کچھ حصہ پہلی دو رکعتوں میں آواز کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔  امام ابوحنیفہ کا موقف ہے کہ نماز خواہ جہری ہو خواہ سری ہو،  نماز با جماعت کی صورت میں مقتدی خاموش رہے گا اور سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھے گا۔

            ان کے علاوہ ایک درمیانی مسلک بھی ہے اور وہ امام مالک اور امام ابن تیمیہ وغیرہما کا ہے۔  اس ضمن میں اُن کا موقف یہ ہے کہ جہری رکعت میں مقتدی سورۃ الفاتحہ مت پڑھے،  بلکہ امام کی قراءت خاموشی سے سنے،  ازروئے نصِ قرآنی:  (وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَـہ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّـکُمْ تُرْحَمُوْنَ) (الاعراف)  "اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم پوری توجہ سے اسے سنا کرو اور خود خاموش رہا کرو،  تاکہ تم پر رحم کیا جائے"۔   اسی طرح حدیث نبوی ہے : ((اِذَا قَرَأَ [الْاِمَامُ] فَاَنْصِتُوْا))   "جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو"۔  چنانچہ جب امام بالجہر قراء ت کر رہا ہے:  (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ )  تو آپ سنیے اور خود خاموش رہیے،  لیکن جو سرّی نماز ہے اس میں امام اپنے طور پر سورۃ الفاتحہ پڑھے اور آپ اپنے طور پر خاموشی سے پڑھیں۔  یہ درمیانی موقف ہے،  اور میں نے بہرحال اسی کو اختیارکیا ہوا ہے۔

فطرتِ سلیمہ کی پکار

            سورۃ الفاتحہ کے ضمن میں،  مَیں نے عرض کیا کہ یہ دُعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین کی ہے۔  لیکن اس سے آگے بڑھ کر ذرا قرآن مجید کی حکمت اور فلسفہ پر اگر غور کریں گے تو اس سورت کی ایک اور شان سامنے آئے گی۔  بنیادی طور پر قرآن کا فلسفہ کیا ہے؟ انسان اس دنیا میں جب آتا ہے تو فطرت لے کر آتا ہے،  جسے قرآن حکیم "فِطْرَت اللّٰہِ"  قرار دیتا ہے،  از روئے الفاظِ قرآنی:  (فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ) (الرّوم: ۳۰) یہی حقیقت حدیث ِنبوی میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے: ((مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ،  فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہ اَوْ یُنَصِّرَانِہ اَوْ یُمَجِّسَانِہ)) "(نسل انسانی کا) ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے،  لیکن یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی،  نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں"۔  ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے فطرتِ اسلام لے کر آتا ہے۔  تو انسان کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور اپنی محبت ودیعت کر دی ہے۔  اس لیے کہ جو روحِ انسانی ہے وہ کہاں سے آئی ہے؟   (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ)   "(اے نبی!) یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔  کہہ دیجیے کہ روح میرے ربّ کے امر میں سے ہے"۔  ہماری روح رب تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے،  لہٰذا اس کے اندر اللہ کی معرفت بھی ہے،  اللہ کی محبت بھی ہے۔  تو جب تک ایک انسان کی فطرت میں کوئی کجی نہ آئے،  وہ بے راہ روی  (perversion) سے محفوظ رہے تو اسے ہم کہتے ہیں فطرتِ سلیمہ،  یعنی سالم اور محفوظ فطرت۔  اس فطرت والا انسان جب بلوغ کو پہنچتا ہے اور اسے عقل سلیم بھی مل جاتی ہے،  یعنی صحیح صحیح انداز میں غور کرنے کی صلاحیت مل جاتی ہے تو ان دونوں چیزوں کے امتزاج کے نتیجہ میں ایمانیات کے کچھ بنیادی حقائق انسان پر خود منکشف ہو جاتے ہیں،  خواہ اسے کوئی وحی ملے یا نہ ملے۔  یہ ہے فطرت کا معاملہ اور یہ ہے قرآن کی حکمت اور فلسفہ کا اصول۔  اس کی ایک بڑی شاندار مثال قرآن مجید میں حضرت لقمان کی دی گئی ہے،  جو نہ نبی تھے نہ کسی نبی کے پیروکار اور اُمتی تھے،  لیکن انہیں اللہ نے حکمت عطا فرمائی تھی۔

             حکمت:  فطرتِ سلیمہ،  قلب ِسلیم اور عقل ِسلیم کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔  اگر فطرت بھی محفوظ ہے،  عقل بھی ٹیڑھ  پر نہیں چل رہی ،  بلکہ صحیح اور سیدھے راستے پر چل رہی ہے تو ان دونوں کے امتزاج سے جو حکمت پیدا ہوتی ہے،  انسان کو جو دانائی  (wisdom) میسر آتی ہے اس کے نتیجہ میں وہ پہچان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پیدا کرنے والا ہے،  یہ خود بخود نہیں بنی ہے۔  دوسرے یہ کہ وہ اکیلا ہے،  تنہا ہے،  کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے (لَا مِثْلَ لَـہ وَلَا مِثَالَ لَـہ وَلَا مَثِیْلَ لَـہ وَلَا کُفُوَ لَـہ وَلَا ضِدَّ لَـہ وَلَا نِدَّ لَـہ)۔ کوئی اس کا مدّ مقابل نہیں ہے اور اس میں تمام صفاتِ کمال بتمام وکمال موجود ہیں۔  وہ  عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْـر ہے،   بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیـْـم ہے،  ہر جگہ موجود ہے،  اور اس کی ذات میں کوئی نقص،  کوئی عیب،  کوئی کوتاہی،  کوئی تقصیر،  کوئی کمزوری،  کوئی ضعف،  کوئی احتیاج قطعاً نہیں ہے۔

            یہ پانچ باتیں فطرتِ سلیمہ اور عقل ِسلیم کے نتیجہ میں انسان کے علم میں آتی ہیں،  چاہے اُسے ابھی کسی وحی سے فیض حاصل نہ ہوا ہو۔  چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ چین کا بڑا فلسفی اور حکیم کنفیوشس ان تمام باتوں کو ماننے والا تھا،  حالانکہ وہ نبی تو نہیں تھا! مزید برآں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی صرف یہ دنیا کی زندگی نہیں ہے،  اصل زندگی ایک اور ہے جو موت کے بعد شروع ہو گی اور اس میں انسان کو اس زندگی کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا،  نیکیاں کمائی ہیں تو ان کی جزا ملے گی اور بدیاں کمائی ہیں تو ان کی سزا ملے گی۔  یہ وہ حقائق ہیں کہ جہاں تک انسان اپنی عقل سلیم اور فطرتِ سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔  پھر اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ہستی جو یکتا ہے،  وہی پیدا کرنے والا ہے،  پروردگار ہے، عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْـر ہے،   بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیـْـم ہے،  وہی رازق ہے،  وہی خالق ہے،  وہی مالک ہے،  وہی مشکل کشا ُہے،  تو اب اسی کی بندگی ہونی چاہیے،  اسی کا حکم ماننا چاہیے،  اسی سے محبت کرنی چاہیے،  اسی کو مطلوب بنانا چاہیے،  اسی کو مقصود بنانا چاہیے۔  یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے اور یہاں تک انسان عقل ِسلیم اور فطرتِ سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔

درخواستِ ہدایت

            البتہ اب آگے مسئلہ آتا ہے کہ میں کیا کروں کیا نہ کروں؟ اس میں بھی جہاں تک انفرادی معاملات ہیں،  اُن کے ضمن میں ایک روشنی اللہ نے انسان کے باطن میں رکھی ہوئی ہے،  اس کے ضمیر کے اندر،  قلب اور روح کے اندر یہ روشنی موجود ہے کہ انسان نیکی اور بدی کو خوب جانتا ہے۔  ازروئے الفاظِ قرآنی:   (وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّٰئهَا  فَاَلـْـھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا ) (الشمس)  قسم ہے نفس ِانسانی کی اور جو اسے سنوارا (درست کیا،  اس کی نوک پلک سنواری)،  پھر اس میں نیکی اور بدی کا علم الہامی طور پر رکھ دیا ۔  ہر انسان جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا برا ہے،  سچ بولنا اچھا ہے،  وعدہ پورا کرنا اچھا ہے،  وعدہ خلافی بری بات ہے،  پڑوسی کو ستانا بہت بری بات ہے جبکہ پڑوسی کے ساتھ خوش خُلقی کے ساتھ پیش آنا انسانیت کا تقاضا ہے۔  تو انفرادی سطح پر بھی انسان صحیح اور غلط،  حق اور باطل میں کچھ نہ کچھ فرق کر لیتا ہے۔  لیکن جب اجتماعی زندگی کا معاملہ آتا ہے تو اس کے لیے مجبوری ہے کہ وہ نہیں سمجھ سکتا کہ اعتدال کا راستہ کون سا ہے۔  عائلی زندگی میں عورت کا مقام کیا ہونا چاہیے،  عورت کے حقوق کیا ہونے چاہئیں۔  چنانچہ ایک انتہا تو یہ ہے کہ دنیا میں عورت کو مرد کی ملکیت بنا لیا گیا۔  جیسے بھیڑ بکری کسی کی ملکیت ہے،  ایسے ہی گویا بیوی بھی خاوند کی ملکیت ہے،  اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں،  اس کے کوئی حقوق ہی نہیں،  اس کا کوئی  legal status ہی نہیں،  اس کے کوئی دستوری حقوق ہی نہیں۔ وہ نہ کسی شے کی مالک ہو سکتی ہے،  نہ کوئی کاروبار کر سکتی ہے۔  اور ایک انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی قلو پطرہ ہے جو کسی قوم کی سربراہ بن کر بیٹھ جائے اور پھر اس کا بیڑا غرق کر دے،  جیسے مصر کا بیڑا قلو پطرہ نے غرق کیا۔  تو یہ دو متضاد انتہائیں ہیں۔

            آج ہمیں مغرب میں نظر آ رہا ہے کہ مرد و زن بالکل شانہ بشانہ اور برابر ہیں۔  اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ فیملی لائف ختم ہو کر رہ گئی۔  اب وہاں صرف one parent family ہے۔  بل کلنٹن نے سالِ نو پر اپنی قوم کو جو پیغام دیا تھا اس میں کہا تھا کہ عنقریب ہماری امریکی قوم کی عظیم اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہو گی۔  (اُس نے الفاظ استعمال کیے تھے: Born with out any wedlock)۔  حلال زادہ اور حرام زادہ میں یہی تو فرق ہے کہ اگر ماں باپ کا نکاح ہوا ہے،  شادی ہوئی ہے تو ان کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ ان کی حلال اور جائز اولاد ہے۔ لیکن اگر ایک مرد اور ایک عورت نے بغیر نکاح کے تعلق قائم کر لیا ہے تو اس طرح بغیر کسی  Legal marriage کے،  بغیر کسی شادی کے بندھن کے جو اولاد ہو گی وہ حرامی ہے۔  بل کلنٹن کو معلوم تھا کہ ان کے یہاں اب جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ اکثر و بیشتر بغیر کسی شادی کے بندھن کے پیدا ہو رہے ہیں،  لہٰذا اس نے کہا کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہو گی۔  ایک قوم کی کج روی اور perversion کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے بنیادی فارموں میں سے باپ کا نام ہی نکال دیا ہے۔  اس لیے کہ بہت سے بچوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ ہمارا باپ کون ہے،  وہ تو اپنی ماں سے واقف ہیں،  باپ کے بارے میں انہیں کچھ علم نہیں ہے۔  

            اسی طرح سرمایہ اور محنت کے درمیان حقوق وفرائض کا توازن کیا ہو،  یہاں بھی انسان بے بس ہے۔  سرمایہ دار کی اپنی مصلحتیں ہیں اور مزدور کی اپنی مصلحتیں ہیں۔  سرمایہ دار کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ مزدور پر کیا بیت رہی ہے،  وہ کن مشقتوں میں ہے۔  بقول علامہ اقبال:   

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

 ہیں  تلخ  بہت  بنده مزدور  کے  اوقات!

لہٰذا سرمایہ کے کیا حقوق ہیں اور لیبر کے کیا حقوق ہیں،  ان میں توازن کیا ہو،  یہ کس طرح معین ہو گا؟

            اسی طرح کا معاملہ فرد اور معاشرے کا ہے۔  ایک طرف انفرادی حقوق اور انفرادی آزادی ہے اور دوسری طرف معاشرہ،  قوم اور ریاست (state) ہے۔  کس کے حقوق زیادہ ہوں گے؟ ایک فرد کہتا ہے میں آزاد ہوں،  میں مادر زاد برہنہ ہو کر سڑک پر چلوں گا،  تم کون ہو مجھے روکنے والے؟ آیا اسے روکا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اسے روک دیا جائے تو اس کی آزادی پر قدغن ہو جائے گی۔  اگر اسے کہا جائے کہ تم اس طرح نہیں نکل سکتے تو آزادی تو نہیں رہی،  اس کی مادر پدر آزادی تو ختم ہو جائے گی! لیکن ظاہر بات ہے کہ ایک ریاست اور معاشرہ کے کچھ اصول ہیں،  اس کے کچھ اخلاقیات ہیں،  کچھ قواعد و قوانین ہیں۔  وہ چاہتی ہے کہ ان کی پابندی کی جائے،  اور پابندی کرانے کے لیے وہ چاہتی ہے کہ اس کے پاس اختیارات ہوں، اتھارٹی ہو۔  دوسری طرف عوام یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق کا سارا معاملہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ اب اس میں اعتدال کا راستہ کون سا ہے؟

            یہ ہے وہ عقده لا ینحل ( dilemma) هے کہ جس میں انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور شکل نہیں ہے کہ گھٹنے ٹیک کر اللہ سے دعا کرے کہ پرورد گار! میں اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکتا ،  میں تجھ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔  تو مجھے ہدایت دے،  سیدھے راستہ پر چلا! میں نے تجھے پہچان لیا،  میں نے یہ بھی جان لیا کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے اور حساب کتاب ہو گا اور مجھے جواب دہی کرنی پڑے گی، اور میں اس نتیجہ پر بھی پہنچ چکا ہوں کہ تیری ہی بندگی کرنی چاہیے، تیری ہی اطاعت کرنی چاہیے،  تیرے ہی حکم پر چلنا چاہیے … لیکن اس سے آگے میں کیا کروں کیا نہ کروں؟ کیا صحیح ہے کیا غلط ہے؟ کیا جائز ہے کیا ناجائز ہے؟ میرا نفس تو مجھے اپنی مرغوب چیزوں پر اُکساتا ہے۔  لیکن جس چیز کے لیے میرے نفس نے مجھے اکسایا ہے وہ جائز بھی ہے یا نہیں؟ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ فوری طور پر تو مجھے اس سے مسرت حاصل ہو رہی ہے،  مجھے اس سے لذت حاصل ہو رہی ہے،  منفعت پہنچ رہی ہے،  لیکن میں نہیں جانتا کہ آخر کار،  نتیجے کے اعتبار سے یہ چیز معاشرے کے لیے اور خود میرے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے؟ اے اللہ! میں نہیں جانتا،  تو مجھے ہدایت دے،  مجھے راستہ دکھا،  سیدھا راستہ،  درمیانی راستہ،  ایسا راستہ جو متوازن ہو،  جس میں انصاف ہو،  جس میں عدل اور قسط ہو،  جس میں کسی کے حقوق ساقط نہ ہوں اور کوئی جابر بن کر مسلط نہ ہو جائے،  جس میں نہ کوئی حزن و ملال اور مایوسی ودرماندگی ( depression) ہو،  نہ کوئی معاشی استحصال ہو،  نہ کوئی سماجی امتیاز ہو۔  اے ربّ! ان تینوں چیزوں سے پاک ایک صراطِ مستقیم مَیں اپنے ذہن سے تلاش نہیں کر سکتا، میرے فیصلے جو ہیں غلط ہو جائیں گے۔  تو َمیں ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ مجھے اس سیدھے راستے کی ہدایت بخش دے۔

            یوں سمجھئے کہ پس منظر میں ایک شخص ہے جو اپنی سلامتی ٔ  طبع،  سلامتی ٔ فطرت اور سلامتی ٔ عقل کی رہنمائی میں یہاں تک پہنچ گیا کہ اُس نے اللہ کو پہچان لیا،  آخرت کو پہچان لیا،  یہ بھی طے کر لیا کہ راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ کی بندگی کا راستہ،  لیکن اس کے بعد اسے احتیاج محسوس ہو رہی ہے کہ مجھے بتایا جائے کہ اب میں دائیں طرف مڑوں یا بائیں طرف مڑوں؟ یہ مجھے نہیں معلوم۔  قدم قدم پر چوراہے آ رہے ہیں،  سہ راہے آ رہے ہیں۔  ظاہر بات ہے ان میں سے ایک ہی راستہ ہو گا جو سیدھا منزلِ مقصود تک لے کر جائے گا۔  کہیں میں غلط موڑ مڑ گیا تو میرا حال اس شعر کے مصداق ہو جائے گا:   

رستم کہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر

یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ راہم دُور شد!

ایک چھوٹی سی غلطی انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔  ظاہر بات ہے کہ سیدھے راستہ سے آپ ذرا سا کج ہو گئے تو جتنا آپ آگے بڑھیں گے اسی قدر اس صراطِ مستقیم سے آپ کا فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا۔  آغاز میں تو محض دس ڈگری کا اینگل تھا،  زیادہ فاصلہ نہیں تھا،  لیکن یہ دس ڈگری کا اینگل کھلتا چلا جائے گا اور آپ صراطِ مستقیم سے دُور سے دُور تر ہوتے چلے جائیں گے۔

            اللہ کرے کہ سورۃ الفاتحہ کو پڑھتے ہوئے ہم بھی اسی مقام پر کھڑے ہوں کہ ہمارا دل ٹھکا ہوا ہو،  ہمیں اللہ پر ایمان،  اللہ کی ربوبیت پر ایمان،  اللہ کی رحمانیت پر ایمان،  اللہ کے مالک یوم الدین ہونے پر ایمان حاصل ہو۔  یہ بھی ہمارا عزم ہو اور ہمارا طے شدہ فیصلہ ہو کہ اُسی کی بندگی کرنی ہے،  اور پھر اُس کے سامنے دست سوال دراز کریں کہ پروردگار ہمیں ہدایت عطا فرما!

سورۃ الفاتحہ کے تین حصے

            اس سورئہ مبارکہ کے اسلوب کے حوالے سے اب میں اس کے مضامین کا

UP
X
<>