April 25, 2024

قرآن کریم > الفاتحة >Surah 1 Ayat 4

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ


 اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں)

جزوِ ثانی:  سورۃ الفاتحہ کا دوسرا حصہ صرف ایک آیت پر مشتمل ہے، جو ہر اعتبار سے اس سورۃ کی مرکزی آیت ہے :

                اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ:   ضمیر مخاطب “کَ” کو مقدم  ّکرنے سے حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔  پھر عربی میں فعل مضارع، زمانہ ٔ حال اور مستقبل دونوں کے لیے آتا ہے ، لہٰذا میں نے ترجمہ میں ان باتوں کا لحاظ رکھا ہے۔  یہ بندے کا اپنے پروردگار سے عہد و پیمان ہے جسے میں نے  hand shake سے تعبیر کیا ہے۔  اس کا صحیح تصور ایک حدیث قدسی کی روشنی میں سامنے آتا ہے ، جسے میں بعد میں پیش کروں گا۔  یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرلینا تو آسان ہے کہ اے اللہ! میں تیری ہی بندگی کروں گا، لیکن اس فیصلہ کو نبھانا بہت مشکل ہے:

یہ شہادت گہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!

اللہ کی بندگی کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنا آسان نہیں ہے، لہٰذا بندگی کا عہد کرنے کے فوراً بعد اللہ کی پناہ میں آنا ہے کہ اے اللہ! میں اس ضمن میں تیری ہی مدد چاہتا ہوں۔  فیصلہ تو میں نے کر لیا ہے کہ تیری ہی بندگی کروں گا اور اس کا وعدہ کر رہا ہوں، لیکن اس پر کار بند رہنے کے لیے مجھے تیری مدد درکار ہے۔  چنانچہ رسول اللہ  کے اذکارِ مأثورہ میں ہر نماز کے بعد آپ  کا ایک ذکر یہ بھی ہے:  «رَبِّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ»  “پروردگار! میری مدد فرما کہ میں تجھے یاد رکھ سکوں، تیرا شکر ادا کر سکوں اور تیری بندگی احسن طریقے سے بجا لاؤں”۔  تیری مدد کے بغیر میں یہ نہیں کر سکوں گا۔

                اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ: جب بھی آپ اس آیت کو پڑھیں تو آپ کے اوپر ایک خاص کیفیت طاری ہونی چاہیے کہ پہلے کپکپی طاری ہو جائے کہ اے اللہ!میں تیری بندگی کا وعدہ تو کر رہا ہوں، میں نے ارادہ تو کر لیا ہے کہ تیرا بندہ بن کر زندگی گزاروں گا،میں تیری جناب میں اس کا اقرار کر رہا ہوں، لیکن اے اللہ! میں تیری مددکا محتاج ہوں، تیری طرف سے توفیق ہوگی، تیسیر ہو گی، تعاون ہو گا، نصرت ہوگی تب ہی میں یہ عہد و پیمان پورا کر سکوں گا،ورنہ نہیں۔

                اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ: آیت ایک ہے لیکن جملے دو ہیں۔  “اِیَّاکَ نَعْبُدُ” مکمل جملہ ہے، جملہ فعلیہ انشائیہ ، اور “اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ “ دوسرا جملہ ہے۔  بیچ میں حرفِ عطف واو ہے۔  اس سے پہلے اس سورئہ مبارکہ میں کوئی حرفِ عطف نہیں آیا ہے۔  اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری صفات اُس کی ذات میں بیک وقت موجود ہیں۔  یہاں حرفِ عطف آ گیا : “اے اللہ! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے” اور “تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے”۔  ہمارا سارا دار و مدار اور توکل تجھ ہی پر ہے۔  ہم تیری مدد ہی کے سہارے پر اتنی بڑی بات کہہ رہے ہیںکہ اے اللہ! ہم تیری ہی بندگی کرتے رہیں گے۔

                ہم نمازِ وتر میں جو دعائے قنوت پڑھتے ہیں کبھی آپ نے اس کے مفہوم پر بھی غور کیا ہے؟ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور بہت بڑا اقرار کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِنـَّـا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَـکْفُرُکَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ، اَللّٰہُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَـیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ،  وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْـکُفَّارِ مُلْحِقٌ

“اے اللہ! ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، اور تجھ ہی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں، اور ہم تجھ پر ایمان رکھتے ہیں، اور تجھ پر توکل کرتے ہیں، اور تیری تعریف کرتے ہیں ، اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے۔  اور ہم علیحدہ کر دیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں ہر اُس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔  اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں، اور ہم تیری طرف کوشش کرتے ہیں اور ہم حاضری دیتے ہیں۔  اور ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔ ”

                واقعہ یہ ہے کہ اس دعا کو پڑھتے ہوئے لرزہ طاری ہوتا ہے کہ کتنی بڑی بڑی باتیں ہم اپنی زبان سے نکال رہے ہیں۔  ہم زبان سے توکہتے ہیں کہ”اے اللہ! ہم صرف تیری ہی مدد چاہتے ہیں” لیکن نہ معلوم کس کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور کس کس کے سامنے جبیں سائی کرتے ہیں، کس کس کے سامنے اپنی عزتِ نفس کا دھیلا کرتے ہیں۔  پھر یہ الفاظ دیکھئے:  نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ کہ جو بھی تیری نافرمانی کرے اسے ہم علیحدہ کر دیتے ہیں، اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں، اس سے ترکِ تعلق کر لیتے ہیں۔  لیکن کیا واقعۃً ہم کسی سے ترکِ تعلق کرتے ہیں؟ ہم کہتے ہیں دوستی ہے، رشتہ داری ہے کیا کریں، وہ اپنا عمل جانیں میں اپنا عمل جانوں۔  ہمارا طرزِ عمل تو یہ ہے۔  تو کتنا بڑا دعویٰ ہے اس دُعا کے اندر؟ اور وہ پورا دعویٰ اس ایک جملے میں مضمر ہے :  اِیَّاکَ نَعْبُدُ “پروردگار!ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے”۔  چنانچہ اُس وقت فوری طو رپر بندے کے سامنے یہ کیفیت آ جانی چاہیے کہ اے اللہ میں یہ اسی صورت میں کر سکوں گا اگر تیری مدد شاملِ حال رہے۔ 

 

UP
X
<>