April 24, 2024

قرآن کریم > الفاتحة >Surah 1 Ayat 6

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ

 ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا 

جزو ثالث :  سورۃ الفاتحہ کا تیسرا حصہ تین آیات پر مشتمل ہے، تاہم یہ ایک ہی جملہ بنتا ہے۔  

اب دیکھئے، یہ  اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہی کی تشریح ہے جو آخری تین آیتوں میں ہے۔  ہمیں اللہ سے کیا مدد چاہیے؟ پیسہ چاہیے؟ دولت چاہیے؟ نہیں نہیں! اے اللہ ہمیں یہ نہیں چاہیے۔  پھر کیا چاہیے؟ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  “ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما”۔ یہ جو زندگی کے مختلف معاملات میں دوراہے، سہ راہے اور چوراہے آ جاتے ہیں، وہاں ہم فیصلہ نہیں کر سکتے کہ صحیح کیا ہے، غلط کیا ہے۔  لہٰذا اے اللہ! ہمیں سیدھے راستہ کی طرف ہدایت بخش۔  “اِھْدِ” ہدایت سے فعل امر ہے کہ ہمیں ہدایت دے۔  ہدایت کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ سیدھا راستہ بتا دیا جائے۔  ہدایت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ دکھا دیا جائے، اور ہدایت کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انگلی پکڑ کر سیدھے راستے پر چلایا جائے، جیسے بچوں کو لے کر آتے ہیں۔  لہٰذا سیدھے راستے کی ہدایت کی دعا میں یہ سارے مفہوم شامل ہوں گے۔  اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے۔  اے اللہ! اس سیدھے راستے کے لیے ہمارے سینوں کو کھول دے۔  اَللّٰھُمَّ نَوِّرْ قُلُوْبَنَا بِالْاِیْمَانِ وَاشْرَحْ صُدُوْرَنَا لِلْاِسْلَامِ “اے اللہ! ہمارے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منو ّر کر دے اور ہمارے سینوں کو اسلام کے لیے کھول دے”۔  ہمیں اس پر انشراحِ صدر ہو جائے۔ اور پھر یہ کہ ہمیں اس سیدھے راستے کے اوپر چلا۔

                اب آگے اس صراطِ مستقیم کی بھی وضاحت ہے، اور یہ وضاحت دو طرح سے ہے۔  صراطِ مستقیم کی وضاحت ایک مثبت انداز میں اور ایک منفی انداز میں کی گئی ہے۔  مثبت انداز یہ ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ:  “(اے اللہ!) ان لوگوں کے راستہ پر (ہمیں چلا) جن پر تو نے اپنا انعام نازل فرمایا”۔  یہ مضمون جا کر سورۃ النساء میں کھلے گا کہ منعم َعلیہم چار گروہ ہیں: مِنَ النَّبَيّينَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا. ”کہ وہ نبی، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔  اور بہت ہی خوب ہے ان کی رفاقت”۔  اے اللہ! ان کے راستہ پر ہمیں چلا۔  یہ تو مثبت بات ہو گئی۔ 

 

UP
X
<>