April 24, 2024

قرآن کریم > الفاتحة >surah 1 ayat 7

غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔ 

منفی انداز یہ اختیار فرمایا: غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ “نہ اُن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے”۔  جو لوگ صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے وہ دو قسم کے ہیں۔  ان میں فرق یہ ہے کہ جو شرارتِ نفس کی وجہ سے غلط راستہ پر چلتا ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے، اور جس کی نیت تو غلط نہیں ہوتی، لیکن وہ غلو کر کے جذبات میں آ کر کوئی غلط راستہ اختیار کر لیتا ہے تو وہ  ضالّّ (گمراہ) ہے۔  چنانچہ “مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ “ کی سب سے بڑی مثال یہود ہیں کہ اللہ کی کتاب ان کے پاس تھی، شریعت موجود تھی، لیکن شرارتِ نفس اور تکبر کی وجہ سے وہ غلط راستہ پر چل پڑے۔  جبکہ نصاریٰ “ضَآلِّـیْن” ہیں، انہوں نے حضرت مسیح کے بارے میں صرف غلو کیا ہے۔  جیسے ہمارے یہاں بھی بعض نعت گو اور نعت خواں نبی کریم  کی شان بیان کرتے ہیں تو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کبھی انہیں اللہ سے بھی اوپر لے جاتے ہیں۔  یہ غلو ہوتا ہے، لیکن ہوتا ہے نیک نیتی سے، محبت سے۔  چنانچہ نصاریٰ نے حب رسول میں غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت عیسٰی  کو خدا کا بیٹا بنا دیا۔ ہمارے شیعہ بھائیوں میں سے بھی بعض لوگ ہیں جو حضرت علی کو خدا ہی بنا بیٹھے ہیں۔  مثلاً:

“لیکن نہیں ہے ذاتِ خدا سے جدا علی!”

بہرحال یہ غلو ہوتا ہے جو انسان کو گمراہ کر دیتا ہے۔  اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: قُلْ یٰٓــاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ (المائدۃ: ۷۷) ”اے کتاب والو! اپنے دین میں ناحق غلو سے کام نہ لو”۔  لیکن نصاریٰ نے اپنے دین میں اور حضرت عیسٰی  کی محبت میں غلو سے کام لیا تو وہ گمراہ ہو گئے۔ تو اے اللہ! ان سب کے راستے سے ہمیں بچا کر سیدھے راستے پر چلا ،جو صد ّیقین کا، انبیاء کا، شہداء کا اور صالحین کا راستہ ہے۔

حدیث ِقدسی

                آخر میں وہ حدیث قدسی پیش کر رہا ہوں جس میں سورۃ الفاتحہ ہی کو الصَّلَاۃ (نماز) قرار دیا گیا ہے۔  یہ مسلم شریف کی روایت ہے اور حضرت ابوہریرہ  اس کے راوی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

»قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ، فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ، وَاِذَا قَالَ: اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ، وَاِذَا قَالَ: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ: مَجَّدَنِیْعَبْدِیْ، وَقَالَ مَــرَّۃً: فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ، فَاِذَا قَالَ: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ قَالَ: ہٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ، فَاِذَا قَالَ: اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ قَالَ: ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ»

“میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو برابر حصوں ّمیں تقسیم کر دیا ہے( اس کا نصف حصہ میرے لیے اور نصف حصہ میرے بندے کے لیے ہے ) اور میرے بندے کو وہ عطا کیا گیا جو اُس نے طلب کیا۔  جب بندہ کہتا ہے: “اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ” تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی (میرا شکر ادا کیا)۔  جب بندہ کہتا ہے : “الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ” تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی۔  جب بندہ کہتا ہے: “مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ” تو اللہ فرماتا ہے کہ میر ے بندے نے میری بزرگی اور بڑائی بیان کی، اور ایک مرتبہ آپ   نے یہ بھی فرمایا: “میرے بندے نے اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا     (گویا یہ پہلا حصہ کل کا کل اللہ کے لیے ہے۔) پھرجب بندہ کہتا ہے: “اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ” تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے ما بین مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو بخشا جو اُس نے مانگا۔ (گویا یہ حصہ ایک قول و قرار اور عہد و میثاق ہے۔  اسے میں نے کہا تھا کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان hand shake ہے۔ ) پھر جب بندہ کہتا ہے: “اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ  غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ” تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ حصہ (کل کا کل) میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا وہ میں نے اُسے بخشا”۔

                اس حدیث کی رو سے سورۃ الفاتحہ کے تین حصے بن جائیں گے۔  پہلا حصہ کلیتاً اللہ کے لیے ہے اور آخری حصہ کلیتاً بندے کے لیے، جبکہ درمیانی و مرکزی آیت: “اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ” بندے اور اللہ کے مابین قول و قرار ہے۔  گویا اس کا بھی نصف ِاوّل اللہ کے لیے اور نصف ِ ثانی بندے کے لیے ہے۔  اس طرح نصف نصف کی تقسیم بتمام و کمال پوری ہو گئی!

                ایک بات یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس حدیث ِقدسی میں  “قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَـیْنِیْ وَبَـیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ” کے بعد آیت “بسم اللہ” کا ذکر نہیں ہے، بلکہ “اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ” سے بات براہِ راست آگے بڑھتی ہے۔  اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس ضمن میں امام ابو حنیفہ کا موقف درست ہے کہ آیت بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا جزو نہیں ہے۔

                اس سورہ مبارکہ کے اختتام پر “آمین” کہنا مسنون ہے۔  “آمین” کے معنی ہیں “اے اللہ ایسا ہی ہو!” اس سورئہ مبارکہ کا اسلوب چونکہ دعائیہ ہے، لہٰذا دعا کے اختتام پر “آمین” کہہ کر بندہ گویا پھر بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے کہ اے پروردگار! میں نے یہ عرض داشت تیرے حضور پیش کی ہے، تو اسے شرفِ قبول عطا فرما!

بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم   

UP
X
<>