April 20, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 7

إَنَّ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا وَرَضُواْ بِالْحَياةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّواْ بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ 

جو لوگ ہم سے (آخرت میں ) آملنے کی کوئی توقع ہی نہیں رکھتے، اور دُنیوی زندگی میں مگن اور اُسی پر مطمئن ہو گئے ہیں ، اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں

 آیت ۷:  اِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا:  «بے شک وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں»

            یہاں پر یہ نکتہ نوٹ کریں کہ یہ الفاظ اس سورت میں بار بار دہرائے جائیں گے۔ اصل میں یہ ایسی انسانی سوچ اور نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق انسانی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ یہ انسانی زندگی جو ہم اس دنیا میں گزاررہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے! اسے محاورۃً «چار دن کی زندگی» قرار دیا جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے بھی کہا ہے:

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

 دو آرزو میں کٹ گئے،  دو انتظار میں!

اگر انسان اس دُنیا میں طویل طبعی عمر بھی پائے تو اس کا ایک حصہ بچپن کی نا سمجھی اور کھیل کود میں ضائع ہو جاتا ہے۔ شعور اور جوانی کی عمر کا تھوڑا سا و ہ اس کے لیے کار آمد ہوتا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی بڑھاپا اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے  «لِکَیْ لاَ یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا»  (النحل: ۷۰) کی جیتی جاگتی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ تو کیا انسانی زندگی کی حقیقت بس یہی ہے؟ اور کیا اتنی سی زندگی کے لیے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا جاتا ہے؟ انسان غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ انسانی زندگی محض ہمارے سامنے کے چند ماہ وسال کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے۔ علامہ اقبال کے بقول:

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ

جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی

اور اقبال ہی نے اس سلسلے میں انسانی نا سمجھی اور کم ظرفی کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے:

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے!

اس لامتناہی سلسلۂ زندگی میں سے ایک انتہائی مختصر اور عارضی و ہ یہ دُنیوی زندگی ہے جو اللہ نے انسان کو آزمانے اور جانچنے کے لیے عطا کی ہے:  اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا.  (الملک: ۲) ۔ جبکہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور وہ بہت طویل ہے۔ جیسے سورۃ العنکبوت میں فرمایا:   وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ.  «اور یقینا آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!» مگر وہ لوگ جن کا ذہنی اُفق تنگ اور سوچ محدود ہے، وہ اسی عارضی اور مختصر ٔزندگی کو اصل زندگی سمجھ کر اس کی رعنائیوں پر فریفتہ اور اس کی رنگینیوں میں گم رہتے ہیں۔ بقولِ علامہ اقبال :  

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

            اصل اور دائمی زندگی کی عظمت اور حقیقت ایسے لوگوں کی نظر وںسے بالکل اوجھل ہو چکی ہے۔

             وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ:  «اور وہ دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور اسی پر مطمئن ہیں، اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔»

            انسانوں کے اندر اور باہر اللہ کی بے شمار نشانیاں موجود ہیں اور ان کی فطرت انہیں بار بار دعوتِ فکر بھی دیتی ہے:

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ!

مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ!

مگر وہ لوگ شہواتِ نفسانی کے چکروں میں اس حد تک غلطاں و پیچاں ہیں کہ انہیں آنکھ کھول کر انفس و آفاق میں بکھری ہوئی ان لاتعداد آیاتِ الٰہی کو ایک نظر دیکھنے کی فرصت ہے نہ توفیق۔ 

UP
X
<>