April 25, 2024

قرآن کریم > قريش >sorah 106 ayat 2

اِيلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ

یعنی وہ سردی اور گرمی کے موسموں میں (یمن اور شام کے) سفر کرنے کے عادی ہیں

آيت 2: إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ: «(يعنى) سرديوں اور گرميوں كے سفر سے ان كو مانوس ركھنے كى وجه سے۔»

يعنى الله تعالى نے قريش كے دلوں ميں سردى اور گرمى كے تجارتى سفروں كى الفت ومحبت پيدا كر دى۔

        ايلاف: اَلِفَ يَأْلَفُ اَلْفًا سے باب افعال كا مصدر هے، يعنى مانوس كرنا اور خوگر بنانا۔ اردو ميں الفت اور مالوف كے الفاظ بھى اسى سے ماخوذ هيں۔

        سوره قريش كى پهلى دو آيات ميں قريش كى اس اجاره دارى كى طرف اشاره هے جو حضور صلى الله عليه وسلم كى پيدائش سے قبل زمانے ميں انهيں مشرق اور مغرب كى تجارت پر حاصل تھى۔ اس زمانے ميں مشرق بعيد كے ممالك (هندوستان، جادا، ملايا، سماٹرا، چين وغيره) سے بحر هند كے راستے جو سامان تجارت آتا تھا وه يمن كے ساحل پر اترتا تھا۔ دوسرى طرف يورپ سے آنے والے جهاز شام اور فلسطين كے ساحل پر لنگر انداز هوتے تھے۔ اس كے بعد يمن سے سامان تجارت كو شام پهنچانے اور ادھر كا سامان يمن پهنچانے كے ليے خشكى كا راسته استعمال هوتا تھا۔ چناں چه يمن اور شام كے درميان اس راستے كى حيثيت اس زمانے ميں گويا بين الاقوامى تجارتى شاهراه كى سى تھى۔ ظاهر هے يورپ كو انڈيا سے ملانے والا سمندرى راسته (around the cape of good hope) تو واسكو ڈے گاما نے صديوں بعد 1498ء ميں دريافت كيا تھا، جب كه بحيره احمر كو بحر روم سے ملانے والى نهر سويز 1869ء ميں بنى تھى۔

        حضور صلى الله عليه وسلم كى ولادت سے تقريباً ڈيڑھ دو سو سال پهلے تك اس تجارتى شاهراه پر قوم سبا كى اجاره دارى تھى۔ ليكن جب «سدِّ مآرب» ٹوٹنے كى وجه سے اس علاقے ميں سيلاب آيا اور اس سيلاب كى وجه سے اس قوم كا شيرازه بكھر گيا تو يه شاهراه كلّى طور پر قريش مكه كے قبضے ميں چلى گئى۔ قريش مكه چوں كه كعبه كے متولى تھے اس ليے پورے عرب ميں انهيں عزت وعقيدت كى نگاه سے ديكھا جاتا تھا۔ اس زمانے ميں جهاں كوئى بھى تجارتى قافله لٹيروں اور ڈاكوؤں كے هاتھوں محفوظ نهيں تھا وهاں قريش كے قافلوں كو پورے عرب ميں كوئى ميلى نگاه سے نهيں ديكھتا تھا۔ اس كى ايك وجه يه بھى تھى كه عرب كے تمام قبائل نے اپنے اپنے بت خانه كعبه ميں نصب كر ركھے تھے۔ گويا هر قبيلے كا «خدا» قريش كى مهربانى سے هى خانه كعبه ميں قيام پذير تھا، بلكه يوں كهنا چاهيے كه قريش كے پاس يرغمال تھا۔ اس ليے عرب كا كوئى قبيله بھى ان كے قافلوں پر هاتھ ڈالنے كى جرأت نهيں كر سكتا تھا۔ چناں چه قريش كے قافلے سارا سال بلا خوف وخطر يمن سے شام اور شام سے يمن كے راستے پر رواں دواں رهتے تھے۔ گرميوں كے موسم ميں وه لوگ شام وفلسطين كے سرد علاقوں جب كه سرديوں ميں يمن كے گرم علاقے كا سفر اختيار كرتے تھے۔ آيت زير مطالعه ميں ان كے اسى تجارتى سفر كا ذكر هے۔ ظاهر هے بين الاقوامى تجارتى شاهراه پر مكمل اجاره دارى، تجارتى قافلوں كے همه وقت تحفظ كى يقينى ضمانت اور موسموں كى موافقت اور مطابقت سے سرد وگرم علاقوں كے سفر كى سهولت، يه ان لوگوں كے ليے ايسى نعمتيں تھيں جس پر وه الله تعالى كا جتنا بھى شكر ادا كرتے كم تھا۔ اس ليے ان نعمتوں كا ذكر كرنے كے بعد فرمايا:

UP
X
<>