April 25, 2024

قرآن کریم > هود >surah 11 ayat 6

وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ 

اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اﷲ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔ وہ اُس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے، اور عارضی ٹھکانے کو بھی۔ ہر بات ایک واضح کتاب میں درج ہے

 آیت ۶:  وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا:  «اور نہیں ہے کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جاندار) زمین پر، مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے»

            اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر تقسیم ِرزق کا جو نظام وضع کیا ہے اس میں اس نے ہر جاندار کے لیے اس کی ضروریاتِ زندگی فراہم کر دی ہیں۔  بچے کی پیدائش بعد میں ہوتی ہے مگر اس کے لیے ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے پیدا ہو جاتا ہے۔  لیکن جہاں کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ اللہ کے اس نظام اور اس کے قوانین کو پس ِپشت ڈال کر کوئی ایسا نظام یا ایسے قوانین وضع کرے جن کے تحت ایک فرد کے حصے کا رزق کسی دوسرے کی جھولی میں چلا جائے، تو رزق یا دولت کی تقسیم کا خدائی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔  اس لوٹ کھسوٹ کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کہیں دولت کے بے جا انبار لگیں گے اور کہیں بے شمار انسان فاقوں پر مجبور ہو جائیں گے۔ لہٰذا جہاں کہیں بھی رزق کی تقسیم میں کوئی کمی بیشی نظر آئے تو سمجھ لو کہ اس کا ذمہ دار خودانسان ہے۔  

             وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا:  «اور وہ جانتا ہے اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی اور اس کے عارضی طور پر سونپے جانے کی جگہ کو بھی۔ »

            مُستَقَراور مُستَودَع دونوں الفاظ کی تشریح سورۃ الانعام کی (آیت: ۹۸) میں تفصیل کے ساتھ ہو چکی ہے۔  وہاں ان الفاظ کے بارے میں تین مختلف اقوال بھی زیر بحث آ چکے ہیں۔

             کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ:  «یہ سب کچھ ایک روشن کتاب میں (درج) ہے۔ »

            وہی روشن اور واضح کتاب جو علم ِالٰہی کی کتاب ہے۔ 

UP
X
<>