April 25, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 9

اقْتُلُواْ يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ 

 (اب اس کا حل یہ ہے کہ) یوسف کو قتل ہی کر ڈالو، یا اُسے کسی اور سرزمین میں پھینک آؤ، تاکہ تمہارے والد کی ساری توجہ خالص تمہاری طرف ہو جائے، اور یہ سب کرنے کے بعد پھر (توبہ کر کے) نیک بن جاؤ۔ ‘‘

 آیت  ۹:  اقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَـکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ: «(چنانچہ) قتل کر دو یوسف کو یا اسے پھینک آؤ (دور) کسی علاقے میں تا کہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائے»

            یوسف چونکہ ان دونوں میں بڑا ہے، اس لیے وہی والد صاحب کی ساری توجہ اور عنایات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے، چنانچہ جب یہ نہیں رہے گا تو لا محالہ والد صاحب کی تمام تر شفقت اور مہربانی ہمارے لیے ہی ہو گی۔

             وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ: « اور پھر اس کے بعد نیک بن جانا۔»

            اس فقرے میں اُن کے نفس اور ضمیر کی کشمکش کی جھلک صاف نظر آ رہی ہے۔ ضمیر تو مسلسل ملامت کر رہا تھا کہ یہ کیا کرنے لگے ہو؟ اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ یہ تمہاری سوچ درست نہیں ہے! لیکن عام طور پر ایسے مواقع پر انسان کا نفس اس کے ضمیر پر غالب آ جاتا ہے، جیسا کہ ہم نے سورۃ المائدۃ (آیت ۳۰) میں ہابیل اور قابیل کے سلسلے میں پڑھا تھا: فَطَوَّعَتْ لَہ نَفْسُہ قَتْلَ اَخِیْہِ. «پس قابیل کے نفس نے اُسے آمادہ کر ہی لیا اپنے بھائی کے قتل کرنے پر۔»

            اسی طرح ان لوگوں نے بھی اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک دفعہ یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتار لو، پھر اس کے بعد توبہ کر کے اور کفارہ وغیرہ ادا کر کے کسی نہ کسی طرح اس جرم کی تلافی کر دیں گے اور باقی زندگی نیک بن کر رہیں گے۔

UP
X
<>