April 24, 2024

قرآن کریم > إبراهيم >surah 14 ayat 3

الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُوْلَئِكَ فِي ضَلاَلٍ بَعِيدٍ 

وہ لوگ جو آخرت کے مقابلے میں دُنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں ، او ردوسروں کو راستے پر آنے سے روکتے ہیں ، اور اُس میں ٹیڑھ تلاش کرتے رہتے ہیں ! وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں

 آیت ۳ الَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ: «وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں»

            یہ آیت ہم سب کو دعوت دیتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی ترجیحات کا تجزیہ کرے کہ اس کی مہلت ِزندگی کے اوقات کار کی تقسیم کیا ہے؟ اس کی بہترین صلاحیتیں کہاں کھپ رہی ہیں؟ اور اس نے اپنی زندگی کا بنیادی نصب العین کس رخ پر متعین کر رکھا ہے؟ پھر اپنی مشغولیات میں سے دنیا اور آخرت کے حصے الگ الگ کر کے دیکھے کہ دُنیوی زندگی (مَتاعُ الغُرُوْر) کو سمیٹنے کی اس بھاگ دوڑ میں سے اصل اور حقیقی زندگی (خَیْرٌ وَّاَبْقٰی)کے لیے اس کے دامن میں کیا کچھ بچتا ہے؟

             وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَہَا عِوَجًا اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ بَعِیْدٍ: «اور وہ روکتے ہیں اللہ کے رستے سے اور اس کے اندر کجی تلاش کرتے ہیں۔ یقینا یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔»

            اللہ کے راستے سے روکنے کی مثالیں آج بھی آپ کو قدم قدم پر ملیں گی۔ مثلاً ایک نوجوان کو اگر اللہ کی طرف سے دین کا شعور اور متاع ِہدایت نصیب ہوئی ہے اور وہ اپنی زندگی کو اسی رخ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اس کے والدین اور دوست احباب اس کو سمجھانے لگتے ہیں، کہ تم اپنے کیرئیر کو دیکھو، اپنے مستقبل کی فکر کرو، یہ تمہارے دماغ میں کیا فتور آ گیا ہے؟ غرض وہ کسی نہ کسی طرح سے اسے قائل کر کے اپنے اسی رستے پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس پر وہ خود اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

UP
X
<>