April 19, 2024

قرآن کریم > الحجر >surah 15 ayat 6

وَقَالُواْ يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ اے وہ شخص جس پر یہ ذکر (یعنی قرآن) اُتار اگیا ہے ! تم یقینی طور پر مجنون ہو

 آیت ۶:  وَقَالُوْا یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ: «اور انہوں نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر (اُس کے بقول) یہ ذکر نازل ہوا ہے (ہمارے نزدیک) تم تو یقینا دیوانے ہو۔» معاذ اللہ! ثم معاذ اللہ!!---- مجنون «جن» سے مشتق ہے۔ عربی میں جن کے معنی مخفی چیز کے ہیں۔ اسی معنی میں رحمِ مادر میں بچے کو جنین کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ نظر سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے لفظ «جنت» بھی اسی مادہ سے ہے اور اس سے مراد ایسی زمین ہے جو درختوں اور گھاس وغیرہ سے پوری طرح ڈھکی ہوئی ہو۔ سورۃ الانعام  آیت: ۷۶ میں حضرت ابراہیم کے تذکرے میں یہ لفظ اس طرح آیا ہے: فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّـیْلُ. یعنی جب رات کی تاریکی نے اسے ڈھانپ لیا۔چنانچہ مجنون اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جس پر جن کے اثرات ہوں، آسیب کا سایہ ہو اور اس کو بھی جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو۔

            رسول اللہ کے بارے میں یہ بات وحی کے بالکل ابتدائی دور میں کہی گئی تھی اور اس کے کہنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس طرح کے خیالات کا اظہار معاندانہ انداز میں نہیں بلکہ ہمدردی میں کر رہے تھے۔ یعنی جب ابتدا میں حضور نے نبوت کا دعویٰ کیا اور بتایا کہ غارِ حرا میں ان کے پاس فرشتہ آیا ہے تو بہت سے لوگوں کو گمان ہوا کہ شاید آپ کو کسی بد روح وغیرہ کا اثر ہو گیا ہے۔ چونکہ نبوت ملنے اور فرشتہ کے آنے کا دعویٰ ان کے لیے باکل نئی بات تھی اس لیے ان کا واقعی یہ خیال تھا کہ اکیلے کئی کئی راتیں غارِ حرا میں رہنے کی وجہ سے ضرور آپ پر کسی بد روح یا جن کے اثرات ہو گئے ہیں۔ چنانچہ سوره ن (اس کا دوسرا نام سورۃ القلم بھی ہے) جو کہ بالکل ابتدائی دور کی سورۃ ہے، اس میں ان لوگوں کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا: مَـآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ: « آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں۔»

UP
X
<>