April 25, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 10

وَّاَنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا 

اور یہ بتانا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اُن کیلئے ہم نے ایک دردناک عذاب تیا ر کر رکھا ہے

 آیت ۱۰:  وَّاَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ اَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا :   «اور یہ کہ جو لوگ ایمان نہیں رکھتے آخرت پر، اُن کے لیے ہم نے تیار کر رکھا ہے ایک درد ناک عذاب۔»

            یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جہاں کہیں بھی اعمال کی خرابی کی بات ہوتی ہے وہاں ایمان بالآخرت کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔  

            اس رکوع کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ یہاں بنی اسرائیل کے عروج وزوال کے آئینے میں جو تصویر دکھائی گئی ہے اس میں ہمارے لیے ایک دعوتِ فکر ہے۔ الحمد للہ! آج ہم  (امت ِمحمد)  اُمت مسلمہ ہیں،  لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک زمانے میں بنی اسرائیل بھی اُمت ِمسلمہ ہی تھے۔  وہ بحیثیت نسل آج بھی ایک قوم کے طور پر موجود ہیں مگر انہیں اُمت ِمسلمہ کے منصب سے معزول کر دیا گیا ہے۔ اب ان لوگوں کی حیثیت سابقہ اُمت ِمسلمہ کی ہے اور پچھلے دو ہزار برس سے یہ لوگ بہت زیادہ سختیوں کا شکار رہے ہیں۔  ہمیں ان کی قومی تاریخ کے نشیب و فراز کا جائزہ لے کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کون سے عوامل تھے اور ان کے عقائد واعمال کی وہ کون سی خرابیاں تھیں جن کے باعث وہ لوگ اللہ کے ہاں مغضوب و معتوب ٹھہرے۔  

            یہاں دوسرا نکتہ یہ ذہن نشین کرنے کے لائق ہے کہ سابقہ اور موجودہ اُمتوں کے درمیان مقابلے کے لیے میدان تیزی سے تیار ہو رہا ہے اور یوں سمجھئے کہ دو پتنگیں اوپر چڑھ رہی ہیں،  جن کے درمیان پیچ پڑنے والا ہے۔  بنی اسرائیل اپنے انتہائی زوال کو پہنچنے کے بعد بحیثیت ایک قوم کے پچھلے ایک سو سال سے مادی لحاظ سے رو بہ ترقی ہیں۔ ان کی پتنگ ۱۹۱۷ء میں بالفور (Balfor) ڈیکلریشن کی منظوری سے اوپر چڑھنا شروع ہوئی اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی ریاست معرضِ وجود میں آ گئی۔  ۱۹۶۶ء میں اس کی مزید توسیع عمل میں آئی اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے گئے۔ عرب دنیا کا واحد ملک عراق تھاجس سے اسرائیل کو خطرہ ہو سکتا تھا، اسے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس پورے خطے میں اب کوئی ایسا ملک نہیں جو اسرائیل کی طاقت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔  

            دوسری طرف دیکھا جائے تو مسلم دنیا بھی اپنے زوال کی آخری حدوں کو چھونے کے بعد اب بیداری کی طرف مائل ہے اور اس اُمت کے اندر نئی زندگی پیدا ہونے کا وقت قریب نظر آتا ہے۔  پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۲۴ء میں خلافت ِعثمانیہ کا خاتمہ گویا ہمارے زوال کی انتہا تھی۔  اس کے بعد عالم اسلام میں آزادی کی تحریکیں چلیں اور متعدد مسلم ممالک یورپی اقوام کے تسلط سے آزاد ہو گئے۔  مزید برآں اُمت ِمسلمہ میں بہت سی احیائی تحریکیں اٹھیں،  مثلاً پاک و ہند میں جماعت اسلامی، مصر میں الاخوان المسلمون، ایران میں فدائی تحریک اور انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی وغیرہ، اور اس طرح اس کی نشأۃِ ثانیہ کے عمل کا آغاز ہو گیا۔  چنانچہ پچھلی صدی سے اُمت ِمسلمہ کی صفوں میں زوال اور احیائی عمل پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں۔  جیسے سورۃ الرحمن میں متوازی چلنے والے دو دریاؤں کی مثال دی گئی ہے:  مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ  بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ:  «اس نے دو دریا رواں کیے جو آپس میں ملتے ہیں۔  دونوں میں ایک آڑ ہے کہ  (اس سے)  تجاوز نہیں کر سکتے»۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سابقہ اور موجودہ اُمت ِمسلمہ کی صورت میں دو پتنگیں فضا میں تیر رہی ہیں اور ان کا آپس میں کسی وقت بھی پیچ پڑ سکتا ہے۔  

            یہ تمام تفصیلات ان لوگوں کے علم میں ہونی چاہئیں جو دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ انہیں زمان و مکان کے اعتبار سے درست ادراک ہونا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، ان کے دائیں بائیں کیا حالات ہیں؟ ماضی میں کیا ہوتا رہا ہے، ابھی سامنے کیا کچھ ہے اور مستقبل میں کیا امکانات ہیں؟

UP
X
<>