April 20, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 111

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهُ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا

اور کہو کہ : ’’ تمام تعریفیں اﷲ کی ہیں جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا، نہ اُس کی سلطنت میں کوئی شریک ہے، اور نہ اُسے عاجزی سے بچانے کیلئے کوئی حمایتی درکار ہے۔‘‘ اور اُس کی ایسی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنے کا اُسے حق حاصل ہے

 آیت ۱۱۱:  وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہ:   «اور کہہ دیجیے کہ کل حمد اور کل شکر اللہ ہی کے لیے ہے»

            یہ آیت اپنے مضمون کے اعتبار سے سورۃ الاخلاص کی ہم وزن ہے۔  اس میں پانچ مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور توحید کا بیان ہے۔  اس ضمن میں یہ پہلی بات ہے، یعنی حضور کی زبان مبارک سے یہ اعلان کہ تمام تعریفیں اور ہر قسم کا شکر اللہ ہی کے لیے ہے۔

              الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدً:   «جس نے نہیں بنائی کوئی اولاد»

            یہ دوسری بات ہے، جسے سورۃ الاخلاص میں:  لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ:   کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

              وَّلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْک:   «اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں»

            تیسری بات اقتدار و اختیار سے متعلق ہے۔  اللہ تعالیٰ تنہا ہر چیز کا مالک و مختار اورمالک الملک ہے۔  اس کے علاوہ کسی کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں۔

              وَلَمْ یَکُنْ لَّـہُ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِ:   «اور نہ ہی اس کا کوئی دوست ہے کمزوری کی وجہ سے»

            یہ چوتھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کو اپنی دوستیوں پر قیاس مت کرو۔  تم تو دوستیاں اس لیے پالتے ہو کہ تم اپنے دوستوں کے محتاج ہوتے ہو۔  انسان دوست اس لیے بناتا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت کام آئے گا۔  بعض دفعہ انسان اپنے کسی دوست کی انتہائی ناجائز بات صرف اس لیے ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ کل وہ میری بھی کوئی ضرورت پوری کرے گا۔  انسان کی یہی کمزوری اسے دوست بنانے اور دوستانہ تعلق نبھانے پر مجبور کرتی ہے، مگراللہ تعالیٰ کی ذات ایسی تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔  چنانچہ اللہ کی دوستی کسی ضرورت کی بنیاد پر نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کا کوئی دوست اس سے اپنی کوئی بات زبردستی منوا سکتا ہے۔  پانچویں اور آخری بات بہت اہم ہے:

              وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا:   «اُس کی تکبیر کرو جیسے کہ تکبیر کرنے کا حق ہے۔»

            یہ ترجمہ (تکبیر کرو) بہت اہم اور توجہ طلب ہے۔  صرف زبان سے «اللہ اکبر» کہہ دینے سے اللہ کی تکبیر نہیں ہو جاتی، اس کے لیے عملی طور پر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔  زبان سے اللہ اکبر کہنا تو تکبیر کا پہلا درجہ ہے کہ کسی نے زبان سے اقرار کر لیا کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔  اس کے بعد اہم اور کٹھن مرحلہ اپنے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اللہ کو عملی طور پر بڑا کرنے کا ہے۔  یہ مرحلہ تب طے ہو گا جب ہمارے گھر میں بھی اللہ کو بڑا تسلیم کیا جائے گا اور گھر کے تمام معاملات میں اسی کی بات مانی جائے گی، جب ہماری پارلیمنٹ میں بھی اس کی بڑائی کو تسلیم کیا جائے گا اور کوئی قانون اس کی شریعت کے خلاف نہیں بن سکے گا، جب ہماری عدالتوں میں بھی اس کی بڑائی کا ڈنکا بجے گا اور تمام فیصلے اسی کے احکامات کی روشنی میں کیے جائیں گے۔  غرض جب تک ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اور ہر کہیں اس کا حکم آخری حکم کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا، اللہ کی تکبیر کا حق ادا نہیں ہوگا۔  اللہ کے احکام کو عملی طور پر نافذ نہ کرنے والوں کے لیے سورۃ المائدۃ کا یہ حکم بہت واضح ہے:  وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ  … فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ  … فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔  آج ہم نے اللہ کو (نعوذ باللہ) اپنے تئیں مسجدوں میں بند کر دیا ہے کہ اے اللہ آپ یہیں رہیں، ہم یہیں پر آ کر آپ کی تکبیر کے ترانے گائیں گے، آپ کی تسبیح و تحمید کریں گے --- لیکن مسجد سے باہر ہماری مجبوریاں ہیں۔  کیا کریں مارکیٹ میں مالی مفادات کے ہاتھوں مجبور ہیں، گھر میں بیوی بڑی ہے، کسی اور جگہ کوئی اور بڑا ہے۔  ایسے حالات میں ہمارے ہاں اللہ کی تکبیر کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے اور اب تکبیر فقط دو الفاظ  (اللہ اکبر)  پر مشتمل ایک کلمہ ہے، جسے زبان سے ادا کردیں تو گویا اللہ کی بڑائی کا حق ادا ہو جاتا ہے۔

**** بارک اللّٰہ لي ولکم في القرآن العظیم،  ونفعني وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم ****

UP
X
<>