April 26, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 4

وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا

اورہم نے کتاب میں فیصلہ کر کے بنو اِسرائیل کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاؤ گے، اور بڑی سرکشی کا مظاہر ہ کرو گے

 آیت ۴:  وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ فِی الْْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا:   «اور ہم نے متنبہ کر دیا تھا بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاؤ گے اور بہت بڑی سر کشی کرو گے۔ »

            یعنی تم پر دو ادوار ایسے آئیں گے کہ تم زمین میں سرکشی کرو گے،  فساد برپا کرو گے، دین سے دور ہو جاؤ گے، لہو و لعب میں مبتلا ہو جاؤ گے، اور پھر اس کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے تم پر عذاب کے کوڑے برسیں گے۔  

            یہاں پر بین السطور یہ اشارہ بھی ہے کہ اس سے پہلے بنی اسرائیل پرا یک بہتر دور بھی آیا تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا تھا۔  سورۃ البقرۃ میں ان کے اس اچھے دور کی کچھ تفصیلات ہم پڑھ آئے ہیں۔  یاد دہانی کے طور پر اہم واقعات اختصار کے ساتھ یہاں پھر تازہ کر لیں۔  حضرت موسیٰ  ۱۴۰۰ قبل مسیح میں بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تھے۔  صحرائے سینا میں جبل طور کے پاس پڑاؤ کے زمانے میں آپ کو تورات عطا کی گئی۔  وہاں سے پھر شمال مشرق کی طرف کوچ کرنے اورفلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا گیا۔  جہاد کے اس حکم سے انکار کی پاداش میں بنی اسرائیل کو صحرا نوردی کی سزا ملی۔  اسی دوران میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہو گیا۔  صحرا نوردی کے دوران پروان چڑھنے والی نسل بہادر اور جفاکش تھی۔ انہوں نے حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد کیا جس کے نتیجے میں فلسطین فتح ہو گیا۔ فلسطین کا جو شہر سب سے پہلے فتح ہوا وہ اریحا  (Jericho) تھا۔  فلسطین کی فتح کے بعد ایک بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ایک مضبوط مرکزی حکومت بنانے کے بجائے یہ علاقہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں نے آپس میں بانٹ لیا اور ہر قبیلے نے اپنی حکومت قائم کر لی۔  یہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں نہ صرف بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں بہت کمزور تھیں بلکہ بہت جلد انہوں نے آپس میں بھی لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں ان کے زیر تسلط علاقے بہت جلد انتشار اور طوائف الملوکی کا شکار ہو گئے۔  ان حالات کو دیکھتے ہوئے شام اور اُردن کے ہمسایہ علاقوں میں بسنے والی مشرک اقوام نے ان پر تسلط حاصل کر کے ان کی بیشتر آبادی کو اس علاقے سے نکال باہر کیا۔

            اس حالت کو پہنچنے پر انہوں نے اپنے نبی حضرت سموئیل سے مطالبہ کیا کہ اُن کے لیے ایک بادشاہ یا سپہ سالار مقرر کر دیں تا کہ اس کی قیادت میں تمام قبیلے اکٹھے ہو کر جہاد کریں۔  اس مطالبے کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت طالوت کو اُن کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔  حضرت طالوت نے دشمن افواج کے خلاف لشکر کشی کی، جن کا سپہ سالار جالوت تھا۔  اس جنگ میں حضرت داؤد بھی شامل تھے۔  آپ نے جالوت کو قتل کر دیا، جس کے نتیجے میں دشمن لشکر پر بنی اسرائیل کو فتح نصیب ہوئی اور وہ علاقے میں ایک مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔  حضرت طالوت کے بعد حضرت داؤد ان کے جانشین ہوئے اور حضرت داؤد کے بعد آپ کے بیٹے حضرت سلیمان بادشاہ بنے۔

            حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کے فتح ہونے سے لے کر طالوت اور جالوت کی جنگ تک تین سو سال کا وقفہ ہے۔  حضرت سلیمان کا عہد حکومت اس تین سو سالہ دور کا نقطہ عروج تھا۔  حضرت طالوت، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا دورِ اقتدار تقریباً ایک سو سال کے عرصے پر محیط تھا۔  سولہ برس تک حضرت طالوت نے حکومت کی، اس کے بعد چالیس برس تک حضرت داؤد اور پھر چالیس برس تک ہی حضرت سلیمان برسر اقتدار رہے۔  یہ دور گویا بنی اسرائیل کی خلافت ِراشدہ کا دور تھا جو ہمارے دورِ خلافت ِراشدہ سے مماثلت رکھتا ہے۔  اگرچہ ان کی پہلی تین خلافتیں ایک سو برس کے عرصے پر محیط تھیں اور ہماری امت کی پہلی تین خلافتوں کا عرصہ چوبیس برس تھا، لیکن جس طرح اُن کے پہلے خلیفہ کا دورِ اقتدار مختصر اور بعد کے دونوں خلفاء کا دور نسبتاً طویل تھا اسی طرح ہمارے ہاں بھی حضرت ابوبکر کا دورِ خلافت مختصر، جبکہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کا دور نسبتاً طویل تھا۔  اس کے بعد حضرت علی کی خلافت کو امیر معاویہ نے قبول نہیں کیا تھا، چنانچہ شام اور مصر کے علاقے علیحدہ رہے تھے، بالکل اسی طرح بنی اسرائیل کی مملکت بھی حضرت سلیمان کی وفات کے بعد آپ کے دو بیٹوں کے درمیان تقسیم ہو گئی۔  شمالی مملکت کا نام اسرائیل تھا جس کا دارالخلافہ سامریہ تھا، جبکہ جنوبی مملکت کا نام یہودیہ تھا اور اس کا دارالخلافہ یروشلم تھا۔  

            اس عظیم سلطنت کی تقسیم کے بعد بھی مادی اعتبار سے ایک عرصے تک بنی اسرائیل کا عروج برقرار رہا، لیکن رفتہ رفتہ عوام میں مشرکانہ عقائد، اوہام پرستی اور ہوسِ دنیا جیسی نظریاتی و اخلاقی بیماریاں پیدا ہو گئیں،  اوراحکامِ شریعت کا استہزا ان کا اجتماعی وطیرہ بن گیا۔  چنانچہ اخلاق و کردار کا یہ زوال منطقی طور پر ان کے مادی زوال پر منتج ہوا۔  بنی اسرائیل کا یہ عہد ِزوال بھی تقریباً تین سو سال ہی کے عرصے میں اپنی انتہا کو پہنچا۔  سب سے پہلے آشوریوں کے ہاتھوں ان کی شمالی سلطنت «اسرائیل»  (سات آٹھ سو قبل مسیح کے لگ بھگ) تباہ ہوئی۔  اس کے بعد ۵۸۷ قبل مسیح میں عراق کے نمرود بخت نصر (Nebukadnezar) نے ان کی جنوبی سلطنت «یہودیہ» پر حملہ کیا اور پوری سلطنت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یروشلم کو اس طرح تباہ و برباد کیا گیا کہ کسی عمارت کی دو اینٹیں بھی سلامت نہیں رہنے دی گئیں۔ ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے اس کی بنیادیں تک کھود ڈالی گئیں۔ اس دوران بخت نصر نے چھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا جبکہ چھ لاکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کو جانوروں کی طرح ہانکتا ہوا بابل لے گیا، جہاں یہ لوگ سوا سو سال تک اسیری  (Captivity) کی حالت میں رہے۔  ذلت و رسوائی کے اعتبار سے یہ ان کی تاریخ کا بد ترین دور تھا۔  

            بنی اسرائیل کے دوسرے دورِ عروج کا آغاز حضرت عزیر کی اصلاحی کوششوں سے ہوا۔  آپ کو بنی اسرائیل کی نشاۃ ثانیہ  (Renaissance) کے نقیب کی حیثیت حاصل ہے۔  ۵۳۹ ق م میں ایران کے بادشاہ کیخورس  (Cyrus)  یا ذوالقرنین نے عراق  (بابل)  فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔  چنانچہ یہودیوں کے قافلے فلسطین جانے شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ مدتوں جاری رہا۔  ۴۵۸ ق م میں حضرت عزیربھی ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ یروشلم پہنچے اور اس شہر کو آباد کرنا شروع کیا اور ہیکل سلیمانی کی ازسر نو تعمیر کی۔  اس سے قبل حضرت عزیرکو اللہ تعالیٰ نے سو برس تک سلائے بھی رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سو سال کے لیے موت طاری کردی تھی اور پھر انہیں زندہ کیا اور انہیں بچشم سر ان کے مردہ گدھے کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرایا، جس کے بارے میں ہم سورۃ البقرۃ  (آیت: ۲۵۹)  میں پڑھ آئے ہیں۔  بہر حال حضرت عزیر نے توبہ کی منادی کے ذریعے ایک زبردست تجدیدی اور اصلاحی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں ان کے نظریات اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہونا شروع ہوئی۔  حضرت عزیر نے تورات کو بھی یاداشتوں کی مدد سے ازسر نو مرتب کیا جو بخت نصر کے حملے کے دوران گم ہو گئی تھی۔  

            ایرانی سلطنت کے زوال، سکندر مقدونی کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے شدید دھچکا لگا۔  یونانی سپہ سالار انیٹوکس ثالث نے ۱۹۸ ق م میں فلسطین پر قبضہ کر لیا۔  یونانی فاتحین نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کرنا چاہی، لیکن بنی اسرائیل اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں «مکابی بغاوت» کے نام سے مشہور ہے۔  یہ حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روحِ دینداری کا اثر تھا کہ انہوں نے بالآخر یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک عظیم آزاد ریاست قائم کر لی جو «مکابی سلطنت» کہلاتی ہے۔  بنی اسرائیل کے دوسرے دورِ عروج میں قائم ہونے والی یہ سلطنت ۱۷۰ق م سے لے کر ۶۷ ق م تک پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی۔  مکابی سلطنت اپنے وقت کی معلوم دنیا کے تمام علاقوں پر محیط تھی۔  چنانچہ رقبے کے اعتبار سے یہ حضرت سلیمان کی سلطنت سے بھی وسیع تھی۔  اس زمانہ عروج میں پھر سے ان کی نظریاتی و اخلاقی حالت بگڑنے لگی۔  مشرکانہ عقائد سمیت بہت سی اخلاقی برائیاں پھر سے اُن میں پیدا ہو گئیں، جن کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر یہ قوم عذاب خداوندی کی زد میں آ گئی۔  

            مکابی تحریک جس اخلاقی ودینی روح کے ساتھ اٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بے روح ظاہر داری نے لے لی۔  آخر کار ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپئی کو فلسطین آنے کی دعوت دی۔  چنانچہ پومپئی نے ۶۳ ق م میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کر دیا۔ رومیوں نے فلسطین میں اپنے زیر سایہ ایک دیسی ریاست قائم کر دی جو بالآخر ۴۰ق م میں ہیرود نامی ایک ہوشیار یہودی کے قبضے میں آئی۔  یہ شخص ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے اور اس کی فرماں روائی پورے فلسطین اور شرق ِاردن پر ۴۰ سے ۴ ق م تک رہی۔  اس شخص نے رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر کے قیصر کی خوشنودی حاصل کر لی تھی۔  اس زمانے میں یہودیوں کی دینی و اخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ گئی تھی۔  ہیرود اعظم کے بعد اس کی ریاست اس کے تین بیٹوں کے درمیان تقسیم ہو گئی۔  لیکن ۶ء میں قیصر آگسٹس نے ہیرود کے بیٹے ارخلاؤس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کر دی اور ۴۱ء تک یہی انتظام قائم رہا۔  یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اٹھے تو یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور انہیں واجب القتل قرار دے کر رومی گورنر پونٹس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی اور اپنے خیال کے مطابق تو ان کو سولی پر چڑھوا ہی دیا۔

            رومیوں نے ۴۱ء میں ہیرود اعظم کے پوتے «ہیرود اگرپا» کو ان تمام علاقوں کا حکمران بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا۔  اس شخص نے برسراقتدار آ کر مسیح کے پیروؤں پر مظالم کی انتہا کر دی۔  کچھ ہی عرصے بعد یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہو گئی اور ۶۴ء تا ۶۶ء کے دوران یہودیوں نے رومیوں کے خلاف کھلی بغاوت کر دی، جو اُن کے عروج ثانی کے خاتمے پر منتج ہوئی۔  یہودیوں کی بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لیے بالآخر رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کارروائی کی اور ۷۰ء میں ٹائٹس (Titus) نے بزورِ شمشیر یروشلم کو فتح کر لیا۔  ہیکل سلیمانی ایک دفعہ پھر مسمارکر دیا گیا۔  جنرل ٹائیٹس کے حکم پر شہر میں قتل عام ہوا۔  ایک دن میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار یہودی قتل ہوئے، جبکہ ۶۷ ہزار کو غلام بنا لیا گیا۔  اس طرح رومیوں نے پورے شہر میں کوئی متنفس باقی نہ چھوڑا۔  اس کے ساتھ ہی ارضِ فلسطین سے بنی اسرائیل کا عمل دخل مکمل طور پر ختم ہو گیا۔  بیسویں صدی کے شروع تک پورے دو ہزار برس یہ لوگ جلاوطنی اور انتشار (Diaspora) کی حالت میں ہی رہے۔  جنرل ٹائیٹس کے ہاتھوں ۷۰ء میں ہیکل سلیمانی مسمار ہوا تو آج تک تعمیر نہ ہو سکا۔  حضور کی پیدائش  (۵۷۱ء) کے وقت اسے مسمار ہوئے پانچ سو برس گزر چکے تھے۔  

            یہ خلاصہ ہے اُس قوم کی داستانِ عبرت کا جو اپنے وقت کی امت ِ مسلمہ تھی۔  جس کے اندر چودہ سو برس تک مسلسل نبوت رہی۔  جس کو تین الہامی کتابوں سے نوازا گیا اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ:   (البقرۃ)  «اے بنی اسرائیل یاد کرو میری وہ نعمت جو میں نے تم لوگوں کو عطا کی اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت دی تمام جہانوں والوں پر۔»

            آخر کار بنی اسرائیل کو اُمت ِمسلمہ کے منصب سے معزول کر کے محمد رسول اللہ کی اُمت کو اس مسند ِفضیلت پر متمکن کیا گیا۔  حضور نے اپنی اُمت کے بارے میں فرمایا کہ تم لوگوں پر بھی عین وہی حالات وارد ہوں گے جو بنی اسرائیل پر ہوئے تھے۔  چنانچہ ایسا ہی ہوا۔  مسلمانوں کو پہلا عروج عربوں کے زیر قیادت نصیب ہوا۔  اس کے بعد جب زوال آیا تو صلیبیوں کی یلغار کی صورت میں ان پر عذاب کے کوڑے برسے۔  پھر تاتاریوں نے ہلاکو خان اور چنگیز خاں کی قیادت میں عالم اسلام کو تاخت و تاراج کیا۔  اس کے بعد قدرت نے عالم اسلام کی قیادت عربوں سے چھین کر انہی تاتاریوں کے ہاتھوں میں دے دی، جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا تھا:

ہے  عیاں  فتنۂ تاتار  کے  افسانے  سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

چنانچہ ترکوں کی قیادت میں اس اُمت کو ایک دفعہ پھر عروج نصیب ہوا۔  ترکانِ تیموری، ترکانِ صفوی، ترکانِ سلجوقی اور ترکانِ عثمانی نے دنیا میں عظیم الشان حکومتیں قائم کیں۔  اس کے بعد اُمت مسلمہ پر دوسرا دورِزوال آیا۔  بنی اسرائیل پر دوسرا دورِعذاب یونانیوں اور رومیوں کے ہاتھوں آیا تھا جبکہ اُمت ِمسلمہ پر دوسرا عذاب اقوامِ یورپ کے تسلط کی صورت میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریز، فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی اور ولندیزی (Dutch)  پورے عالم اسلام پر قابض ہو گئے۔  بیسویں صدی کے آغاز میں عظیم عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

            یہ ان حالات وواقعات کا خلاصہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے آیت زیر نظر میں فرمایا ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی بنی اسرائیل کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ تم لوگ اپنی تاریخ میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور سرکشی دکھاؤ گے۔ 

UP
X
<>