April 20, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 106

ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا 

یہ ہے جہنم کی شکل میں اُن کی سزا، کیونکہ انہوں نے کفر کی رَوِش اِختیار کی تھی، اور میری آیتوں اور میرے پیغمبروں کا مذاق بنایا تھا

 آیت ۱۰۶:   ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰیٰتِیْ وَرُسُلِیْ ہُزُوًا:   «ان کا بدلہ جہنم ہے بسبب اس کے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا۔»

            اللہ کی آیات اور رسولوں کے فرمودات کے مطابق تو اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور دُنیوی زندگی کی کچھ اہمیت نہیں، مگر ان طالبانِ دنیا نے سمجھ رکھا تھا کہ اصل کامیابی اسی دُنیوی زندگی کی ہی کامیابی ہے۔ چنانچہ اسی کامیابی کے حصول کے لیے انہوں نے محنت اور کوشش کی اور اسی زندگی کو سنوارنے کے لیے وہ خود کو ہلکان کرتے رہے۔ آخرت کو لائق اعتناء سمجھا اور نہ ہی اس کے لیے انہوں نے کوئی سنجیدہ تگ ودو کی۔ آخرت کا خیال کبھی آیا بھی تو یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لی کہ ہم نے فلاں فلاں بھلائی کے کام بھی تو کیے ہیں اور پھر ہم حضور کے امتی بھی تو ہیں۔ آپ ہماری شفاعت فرمائیں گے اور ہم کامیاب و کامران ہو کر جنت میں پہنچ جائیں گے۔ یہ عقیدہ یہودیوں کے عقیدے سے ملتا جلتا ہے۔ وہ بھی دعویٰ کرتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹوں کی مانند ہیں، اس کے لاڈلے اور چہیتے ہیں۔

            ان آیات کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی توجہ طلب ہے کہ یہاں کفار سے مراد اصطلاحی کفار نہیں، بلکہ ایسے لوگ ہیں جو قانونی طور پر تو مسلمان ہی ہیں، مگر اللہ اور اُس کے رسول کے احکام کو پس پشت ڈال کر سر تا پا دنیا کے طالب بنے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مذکورہ مفہوم میں جو شخص بھی آخرت کے مقابلے میں دنیا کا طالب ہے وہی ان آیات کا مصداق ہے، بظاہر چاہے وہ مسلمان ہو، مسلمانوں کا لیڈر ہو، مذہبی پیشوا ہو یا کوئی بہت بڑا عالم ہو۔ اسی مضمون کو کسی بزرگ نے «جو دم غافل سو دم کافر» کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ آخرت کی نجات کے سلسلے میں یہ بات طے کرنا انتہائی ضروری ہے کہ بنیادی طور پر انسان طالب دنیا ہے یا طالب آخرت!

            آخری رکوع کی ان آیات کا سورت کی ابتدائی آیات کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے اور دجالی فتنے سے حفاظت کے لیے ان کی خصوصی اہمیت ہے، چنانچہ حدیث میں ان کو فتنہ دجال سے حفاظت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ابتدائی دس آیات اور ان آخری آیات کو حفظ کر لیا جائے اورکثرت سے ان کی تلاوت کی جائے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو جمعہ کے روز پوری سورۃ الکہف کی تلاوت کو بھی معمول بنایا جائے۔ 

UP
X
<>