April 18, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 110

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا 

کہہ دو کہ : ’’ میں تو تمہی جیسا ایک انسان ہوں ، (البتہ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تم سب کا خدا بس ایک خدا ہے۔ لہٰذا جس کسی کو اپنے مالک سے جاملنے کی اُمید ہو، اُسے چاہیئے کہ وہ نیک عمل کرے، اور اپنے مالک کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘

 آیت :۱۱۰   قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ:   «(اے نبی!) آپ کہہ دیجیے کہ میں تو بس تمہاری ہی طرح کا ایک انسان ہوں، مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے۔»

               فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِٓ اَحَدًا:   «پس جو کوئی بھی اُمید رکھتا ہو اپنے رب سے ملاقات کی تو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔»

            یعنی عبادت خالص اللہ کی ہو۔ یہ توحید عملی ہے۔ اس بارے میں سوره بنی اسرائیل آیت: ۲۳ میں یوں فرمایا گیا ہے:  وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُ.  «اور فیصلہ کر دیا ہے آپ کے رب نے کہ تم لوگ نہیں عبادت کرو گے کسی کی سوائے اُس کے»۔ سورۃ الکہف کی اس آخری آیت اور سوره بنی اسرائیل کی آخری آیت کا بھی آپس میں معنوی ربط و تعلق ہے۔ موازنہ کے لیے سوره بنی اسرائیل کی آیت ملاحظہ کیجیے:  وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا:   «اور کہہ دیجیے کہ کل حمد اور کل شکر اللہ کے لیے ہے جس نے نہیں بنائی کوئی اولاد، اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں، اور نہ ہی اس کا کوئی دوست ہے کمزوری کی وجہ سے اوراُس کی تکبیر کرو جیسے کہ تکبیر کرنے کا حق ہے»۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا بلند مقام اور اُس کی شان بیان کر کے شرک کی نفی کی گئی ہے۔ دراصل اللہ کے ساتھ شرک کی دو صورتیں ہیں۔ یا تو اللہ کو مرتبہ الوہیت سے نیچے اتار کر مخلوقات کے ساتھ کھڑا کر دیا جاتا ہے یا پھر مخلوقات کی صف میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر بٹھا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ سوره بنی اسرائیل کی آخری آیت میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کرنے کا حکم دے کر شرک کی پہلی صورت کا ابطال کیا گیا ہے جبکہ سورۃ الکہف کی آخری آیت میں شرک کی دوسری صورت یعنی مخلوقات میں سے کسی کو اللہ کے برابر کرنے کی نفی کی گئی ہے۔

            دیکھا جائے تو اللہ کی مخلوق میں سے اس کے شریک بنانے کی روایت ہر زمانے میں رہی ہے۔ عیسائیوں نے حضرت مسیح کو خدا کا درجہ دے دیا اور اہل عرب نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے دیا۔ ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں نے حضور کو (نعوذ باللہ) خدا بنا دیا:

وہی جو مستویٔ عرش تھا  خدا ہو کر

اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفی ہو کر!

اورکسی نے حضرت علی کو خدا کی ذات سے ملا دیا:

ہر چند علی کی ذات نہیں ہے خدا کی ذات

لیکن  نہیں  ہے  ذاتِ خدا  سے جدا  علی

 اور مرزا غالب تو اس سلسلے میں یہاں تک کہہ گئے:

غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست

مشغولِ حق ہوں    بندگی ٔ   بو تراب میں

یعنی جب میں ابو تراب (حضرت علی) کی بندگی کرتا ہوں تو درحقیقت اللہ ہی کی بندگی کر رہا ہوتا ہوں۔ اسی طرح آغا خانیوں کے ہاں حضرت علی کو «دشم اوتار» قرار دیا گیا۔ ہندوؤں کے ہاں نو (۹) اوتار تسلیم کیے جاتے تھے، انہوں نے حضر ت علی کو «دسواں اوتار» مان لیا۔ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک!!

**** بارک اللّٰہ لي ولکم في القرآن العظیم، ونفعني وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم ****

UP
X
<>