April 26, 2024

قرآن کریم > البقرة >Surah 2 Ayat 3

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

 جو بےدیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں  اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ 

آیت3:    الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ:   جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر

            یہ متقین کے اوصاف میں سے پہلا وصف ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ بس جو کچھ ہماری آنکھوں سے نظر آ رہا ہے‘ حواسِ خمسہ کی زد میں ہے بس وہی کل ُحقیقت ہے۔  نہیں! اصل حقیقت تو ہمارے حواس کی سرحدوں سے بہت پرے واقع ہوئی ہے۔

            ہدایتِ قرآنی کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کہ جو اصل حقیقت ہے وہ اس کی نگاہوں سے مستور ہے۔ انگلستان کے بہت بڑے فلسفی بریڈلے (Bradley) کی کتاب کا عنوان ہے: ’’Appearance and Reality‘‘۔  اس نے لکھا ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ حقیقت نہیں ہے‘ حقیقت اس کے پیچھے ہے‘ کنفیوشس (551 تا 479 ق م) چین کا بہت بڑا حکیم اور فلسفی تھا‘ اس کی تعلیمات میں اخلاقی رنگ بہت نمایاں ہے۔ اُس کا ایک جملہ ہے :

There is nothing more real than what can not be seen; and there is nothing more certain than what can not be heard.

یعني وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جا سکتے اور کانوں سے سنے نہیں جا سکتے اُن سے زیادہ یقینی اور واقعی حقائق کوئی اور نہیں ہیں۔

            وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ: ’’اور نماز قائم کرتے ہیں‘‘

            اللہ کے ساتھ اپنا ایک ذہنی وقلبی اور روحانی رشتہ استوار کرنے کے لیے نماز قائم کرتے ہیں۔

            وَمِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ یُنْفِقُوْنَ:  ’’اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘

            یعنی خیر میں‘ بھلائی میں‘ نیکی میں‘ لوگوں کی تکالیف دور کرنے میں اور اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے‘ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

UP
X
<>