April 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >Surah 2 Ayat 6

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

 بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے 

 آیت 6:  اِنَّ الَّـذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ:  یقینا جن لوگوں نے کفر کیا (یعنی وہ لوگ کہ جو کفر پر اڑ گئے) ان کے لیے برابر ہے (اے محمد) کہ آپ انہیں انذار فرمائیں یا نہ فرمائیں‘ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

            اِنَّ الَّـذِیْنَ کَفَرُوْا. سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اپنے کفر پر اڑ گئے۔ اس کو ہم تاویلِ عام میں نہیں لے سکتے۔ اس لیے کہ اس صورت میں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص نے کسی بھی وقت کفر کیا اب وہ ہدایت پر آ ہی نہیں سکتا! یہاں یہ بات مراد نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مغالطہ کی بنا پر یا عدم توجہی کی بنا پر کفر میں ہے‘ حق اس پر واضح نہیں ہوا ہے تو انذار و تبشیر سے اسے فائدہ ہو جائے گا۔ آپ اسے وعظ و نصیحت کریں تو وہ اس کا اثر قبول کرے گا۔ لیکن جو لوگ حق کو حق سمجھنے اور پہچاننے کے باوجود محض ضد‘ ہٹ دھرمی اور تعصب ّکی وجہ سے یا تکبر ّاور حسد کی وجہ سے کفر پر اَڑے رہے تو ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اے نبی! ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ انہیں سمجھائیں یا نہ سمجھائیں‘ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں‘ انذار فرمائیں یا نہ فرمائیں‘ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اس لیے کہ سوتے کو تو جگایا جا سکتا ہے ‘ جاگتے کو آپ کیسے جگائیں گے؟ یہ گویا مکہ کے سرداروں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ ان کے دل اور دماغ گواہی دے چکے ہیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور قرآن ان پر اتمامِ حجت کر چکا ہے اور وہ مان چکے ہیں کہ قرآن کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے‘ یہ محمد کا مکمل معجزہ ہے‘ اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے۔

UP
X
<>