April 25, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 8

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ

 کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں 

آیت8:  وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّـقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ:  اور لوگوں میں سے کچھ  ایسے بھی ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر بھی اور یومِ آخر پر بھی‘ مگر وہ حقیقت میں مؤمن نہیں ہیں۔

             یہاں ایک بات سمجھ لیجیے! اکثر وبیشتر مفسرین نے اس تیسری قسم (category) کے بارے میں یہی رائے قائم کی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے‘ اگرچہ یہاں لفظ منافق یا لفظ ِنفاق نہیں آیا۔ لیکن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اس کے بارے میں ایک رائے ظاہر کی ہے جو بڑی قیمتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے‘ غور کرنے والے غور کر لیں‘ دیکھ لیں کہ وہ کس پر چسپاں ہو رہا ہے۔ اور جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں تو اِن میں شخصیات کی کردار نگاری کا یہ جو نقشہ کھینچا جا رہا ہے یہ بالفعل دو طبقات کے اوپر راست آ رہا تھا۔ ایک طبقہ علمائے یہود کا تھا۔ وہ بھی کہتے تھے کہ ہم بھی اللہ کو مانتے ہیں‘ آخرت کو بھی مانتے ہیں۔ (اسی لیے یہاں رسالت کا ذکر نہیں ہے۔) وہ کہتے تھے کہ اگر سوا لاکھ نبی آئے ہیں تو ان سوا لاکھ کو تو ہم مانتے ہیں‘ بس ایک محمد   کو ہم نے نہیں مانا اور ایک عیسیٰ  کو نہیں مانا‘ تو ہمیں بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ  ہم مسلمان ہیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہاں جس انداز میں تذکرہ ہو رہا ہے اس سے ان کا کردار بھی جھلک رہا ہے اور روئے سخن بھی اُن کی طرف جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے دسویں جماعت کے زمانے میں دہلی میں مَیں نے جوتوں کی ایک دکان پر دیکھا تھا کہ ایک بہت بڑا جوتا لٹکایا ہوا تھا اور ساتھ لکھا  تھا:Free to Whom it Fits . یعنی جس کے پاؤں میں یہ ٹھیک ٹھیک آ جائے وہ اِسے مفت لے جائے! تو یہاں بھی ایک کردارکا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔ اب یہ کردار جس کے اوپر بھی فٹ بیٹھ جائے وہ اس کا مصداق شمار ہو گا۔

            جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ زیادہ تر مفسرین کی رائے تو یہی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے۔ لیکن یہ کردار بعینہ یہود کے علماء پر بھی منطبق ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ مدینہ منورہ میں نفاق کا پودا‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ جو پروان چڑھا ہے وہ یہودی علماء کے زیر اثر پروان چڑھا ہے۔ جیسے جنگل کے اندر بڑے بڑے درخت بھی ہوتے ہیں اور ان کے نیچے جھاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔ تو یہ نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ در اصل یہودی علماء کا جو بہت بڑا پودا تھا اُس کے سائے میں پروان چڑھا ہے اور ان دونوں میں معنوی ربط بھی موجود ہے۔ 

UP
X
<>