April 25, 2024

قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 40

إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى 

اس وقت کا تصور کرو جب تمہاری بہن گھر سے چلتی ہے، اور (فرعون کے کارندوں سے) یہ کہتی ہے کہ : ’’ کیا میں تمہیں اُس (عورت) کا پتہ بتاؤں جو اِس (بچے) کو پالے؟‘ ‘ اس طرح ہم نے تمہیں تمہاری ماں کے پاس لوٹا دیا، تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے، اور وہ غمگین نہ ہو۔ اور تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، پھر ہم نے تمہیں اس گھٹن سے نجات دی، اور تمہیں کئی آزمائشوں سے گذارا۔ پھر تم کئی سال مدین والوں میں رہے، اس کے بعد اے موسیٰ ! تم ایک ایسے وقت پر یہاں آئے ہو جو پہلے سے مقدر تھا

 آیت ۴۰:  اِذْ تَمْشِیْٓ اُخْتُکَ:   «جب تمہاری بہن چلتی جا رہی تھی»

            اور وہ چلتے چلتے فرعون کے محل تک پہنچ گئی جہاں بچے کو فوری طور پر دودھ پلانے کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے منع کر دیا تھا۔ جب بہت سی عورتیں بلائی گئیں اور وہ سب کی سب آپ کو دودھ پلانے میں ناکام رہیں تو آپ کی بہن جو یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی بول پڑی:   

            فَتَقُوْلُ ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ یَّکْفُلُہُ:   «تو اُس نے کہا: کیا میں تمہیں بتاؤں اس (خاندان) کے بارے میں جو اس کی کفالت کرے؟»

            آپ کی بہن نے اپنی ہی والدہ کے بارے میں ان لوگوں کو مشورہ دیا۔ چنانچہ جب آپ کی والدہ کو بلایا گیا تو آپ نے ان کا دودھ فوراً پی لیا۔

            فَرَجَعْنٰکَ اِلٰٓی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہَا وَلَا تَحْزَنَ:   «تو یوں ہم نے لوٹا دیا تمہیں تمہاری والدہ کی طرف، تا کہ اس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ غم نہ کھائے۔»

            چنانچہ مامتا کی تسلی و تسکین کے لیے بچے کو واپس والدہ کی گود میں پہنچا دیا گیا۔ مقامِ غور ہے! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے جذبات و احساسات کا کس حد تک پاس ہے۔

            وَقَتَلْتَ نَفْسًا:   «اور (پھر) تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا»

            پھر جب آپ جوان ہوئے اور مصر میں آپ کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہو گیا:   

            فَنَجَّیْنٰکَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتـَنّٰکَ فُتُوْنًا:   «تو ہم نے تم کو اس غم سے بھی نجات دلائی، اور پھر ہم نے تمہیں (مزید بہت سی) آزمائشوں سے گزارا۔»

            فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْٓ اَہْلِ مَدْیَنَ:   «پھر تم کئی سال اہل مدین میں رہے»

            آپ کے مدین پہنچنے اور وہاں ٹھہرنے کے بارے میں تفصیل سورۃ القصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف اشارہ کیا گیا ہے۔

            ثُمَّ جِئْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی:   «پھر تم یہاں آ گئے ایک طے شدہ فیصلے کے مطابق اے موسی ٰ!»

            یعنی اس وقت آپ کا یہاں پہنچنا کسی حسن اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ ہے۔ میں نے آپ کے سب معاملات کے متعلق باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ آپ نے اس سے پہلے جو کچھ کیا، آپ جہاں جہاں رہے، یہ سب اس منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور اب اسی منصوبہ بندی اور ایک طے شدہ فیصلے کے مطابق آپ اس جگہ پہنچ گئے ہو۔

UP
X
<>