April 25, 2024

قرآن کریم > المؤمنون >surah 23 ayat 1

قَـدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ

اُن ایمان والوں نے یقینا فلاح پالی ہے 

            اس سورت کی ابتدائی گیارہ آیات مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے تیسرے حصے میں شامل ہیں۔ اس حصے کے دروس میں اعمالِ صالحہ کی تفصیلات ایک خاص تدریج سے زیر بحث آئی ہیں۔ اس تدریج میں سب سے پہلی ترجیح تو فرد اور اس کے اعمال کی ہے۔ یعنی ایک بندۂ مؤمن کے اعمال انفرادی حیثیت سے صالح اور نیک ہوں اور اس کے سیرت و کردار کی تعمیر بہتر بنیادوں پر استوار ہو۔ چنانچہ اس تیسرے حصے کا پہلا درس سورۃ المؤمنون کی پہلی گیارہ آیات پر مشتمل ہے۔ ان گیارہ آیات میں بندۂ مؤمن کی سیرت کی اساسات بیان کی گئی ہیں۔ یہ بنیادیں ٹھوس اور پختہ ہوں گی تو سیرت کی عمارت بھی مضبوط ہو گی۔ چنانچہ اس تیسرے حصے میں قرآن حکیم کے مختلف مقامات کے دروس کی مدد سے اعمال صالحہ کے مباحث کو تدریجاً آگے بڑھایا گیا ہے کہ مضبوط اور نیک سیرت کے حامل افراد سے جب خاندان وجود میں آئے گا تو ان کی عائلی زندگی کا نقشہ کیسا ہو گا۔ نیک اور صالح افراد پر مشتمل معاشرے کے خد وخال کیسے ہوں گے اور پھر معاشرے کی بلند ترین سطح پر یعنی ریاستی معاملات میں ان افراد کے سیرت و کردار کی کرامات کا ظہور کن کن صورتوں میں ہو گا۔

آیت ۱:  قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ:   «کام نکال لے گئے اہلِ ایمان۔»

            اس آیت کا یہ ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا ہے۔ مگر خود حضرت شیخ الہند کا کہنا ہے کہ انہوں نے «موضح القرآن» میں شاہ عبدالقاد ردہلوی کا ترجمہ ہی اختیار کیا ہے اور اس میں کہیں کہیں زبان کی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی اور تبدیلی نہیں کی۔ گویا بنیادی طور پر یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی کا ہے اور میرے نزدیک لفظ فلح کی اصل روح کے قریب ترین ہے۔ «فَلَاح» کا ترجمہ بالعموم «کامیابی» سے کیا جاتا ہے، لیکن اس کے مفہوم کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظ «فلاح» کے حقیقی اور لغوی معنی کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ اس مادہ کے لغوی معنی ہیں: «پھاڑنا»۔ اسی معنی میں کسان کو عربی میں «فلّاح» کہا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ اپنے ہل کی نوک سے زمین کو پھاڑتا ہے۔ عربی کی ایک کہاوت ہے: اِنَّ الحَدِیدَ بِالحَدِید یُفلَحُ. یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ اس طرح فَلَح کا مفہوم گویا فَلقَ کے قریب تر ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت: ۹۵ میں لفظ «فلق» اسی مفہوم میں آیا ہے:  اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی:  «یقینا اللہ تعالیٰ گٹھلیوں اور بیجوں کو پھاڑنے والا ہے» ۔ اس سے اگلی آیت میں یہی لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے نمودِ صبح کے حوالے سے اس طرح استعمال ہوا ہے:  فَالِقُ الْاِصْبَاحِ:   یعنی وہ تاریکی کا پردہ چاک کر کے صبح کو نمودار کرنے والا ہے۔ چونکہ فلح اور فلق دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں اور دونوں کے معنی پھاڑنا ہے اس لیے آیت زیر نظر میں فلح کا مفہوم سمجھنے کے لیے:  فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی:   کے حوالے سے گٹھلی کے پھٹنے اور اس کے اندر سے کونپلیں برآمد ہونے کے عمل کو ذہن میں رکھیں۔ جس طرح گٹھلی کے اندر پورا پودا ِبالقوہ (potentially) موجود ہے، اسی طرح انسان کے اندر بھی اس کی انا یا روح اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ اور جس طرح گٹھلی کے پھٹنے (فلق) سے دو کونپلیں برآمد ہوتی ہیں اور پھر ان سے پورا درخت بنتا ہے اسی طرح جب انسانی وجود کے اندر موجود مادیت کے پردے چاک (فلح) ہوتے ہیں تو اس کی انا یا روح بے نقاب ہوتی ہے اور اس کی نشوونما سے اس کی معنوی شخصیت ترقی پاتی ہے۔ انسان کی اسی انا یا روح کو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے اور اس کو اُجاگر (develop) کرنے کے تصور پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے خصوصی طور پر آئیڈیل یا آدرش کے فلسفہ کے حوالے سے (اس ضمن میں گزشتہ صفحات میں سورۃ الحج کی آیت: ۷۳ کی تشریح بھی مدنظر رہے) اپنی معرکۃ الآراء کتاب The Idealogy of the Future میں اقبال کے فلسفہ خودی کی بہترین تعبیرکی ہے۔

            انسان بظاہر ایک مادی وجود کا نام ہے۔ اس وجود میں ہڈیاں ہیں، گوشت ہے اور دیگر اعضاء ہیں۔ لیکن اس مادی وجود کے اندر اس کی انا اور روح بھی ہے جو اس کی اصل شخصیت ہے۔ انسان کہتا ہے: میرا ہاتھ، میرا پاؤں، میری آنکھ، میری ٹانگ، میرا سر، میرا جسم! لیکن اس «میرا» اور «میری» کی تکرار میں «میں» کہاں ہے اور کون ہے؟ یہ «میں» دراصل انسان کی انا یا روح ہے ۔ یعنی انسان کو حیوانوں کے مقابلے میں صرف عقل و شعور کی دولت سے ہی نہیں نوازا گیا بلکہ اسے روحِ ربانی کی نورانیت بھی عطا کی گئی ہے۔ بقول علامہ اقبال:

دم چیست؟  پیام است!  شنیدی نشنیدی؟

در خاکِ تو یک جلوۂ عام است ندیدی؟

 دیدن دگر آموز!  شنیدن دگر آموز!!

            انسانی جسم کے اندر اس کی روح مادی غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ گویا یہ ایک مخفی خزانہ ہے جسے کھود کر نکالنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس خزانے کو کام میں لانا ہے تو «فلّاحی» کے عمل سے مادیت کے پردوں کو چاک کرنا ہو گا اور آیت زیر نظرمیں قَدْ اَفْلَحَ کے الفاظ اسی مفہوم میں آئے ہیں کہ مؤمنین صادقین نے اپنی روحوں پر پڑے ہوئے مادیت کے پردوں کو چاک کر کے اصل خزانے یعنی روح کو بے نقاب کرنے اور اس کی نشوونما (develop) کرنے کا مشکل کام کر دکھایا ہے۔ جبکہ عام انسان کی تمام تر توجہ اپنے حیوانی وجود پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ نہ وہ اپنی روح کی خبر لیتا ہے اور نہ ہی اس کی غذا اور نشوونما کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسان کی روح سسک سسک کر مر جاتی ہے اور اس کا جسم اس کی روح کا مقبرہ بن جاتا ہے۔ بظاہر ایسے شخص کا شمار زندہ انسانوں میں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مردہ ہوتا ہے۔ مثلاً ابو جہل زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ تھا۔ وہ اندھا اور بہرا تھا، اسی لیے نہ تو وہ محمد ٌرسول اللہ کو پہچان سکا اورنہ آپ کی دعوت کو سن سکا۔ اس کے برعکس ایک بندۂ مؤمن ہے جو حقیقت میں زندہ ہے،  اس لیے کہ اس کی روح زندہ ہے۔ جیسے کہ سورۃ النحل کی آیت ۹۷ میں ارشاد ہوا:  فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً:  «تو ہم ضرور اسے عطا کریں گے ایک پاکیزہ زندگی»۔ چنانچہ جو شخص بھی اپنی خودی کے ارتقاء (development of self) اور اپنے کردارکی تعمیر (development of character) کا مشکل کارنامہ سر انجام دے پائے گا وہی حقیقت میں کامیاب قرار پائے گا اور وہی آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے قَدْ اَفْلَحَ کا مصداق ٹھہرے گا۔ اور یہ کامیابی ہر انسان کی پہنچ میں ہے، کیونکہ روح کی دولت تو ہر انسان کو عطا ہوئی ہے۔ ہندی شاعر بھیک کے بقول: ع «بھیکا بھوکا کوئی نہیں، سب کی گدڑی لال!» یعنی بھوکا یا نادار کوئی بھی نہیں ہے، ہرانسان کی گٹھڑی میں لعل موجود ہے،  بس اس گٹھڑی کی گرہ کھول کر اس «لعل» یا دولت کو دریافت کرنے اور اسے کام میں لانے کا فن اسے آنا چاہیے۔ یہی نکتہ اس خوبصورت فارسی شعر میں ایک دوسرے انداز میں پیش کیا گیا ہے:

ستم است گر ہو ست کشد کہ بہ سیرسرو وسمن در آ

تو زغنچہ کم نہ دمیده     درِ دل کشا بہ چمن در آ!

یعنی تمہارے اندر بھی ایک مہکتا ہوا چمن موجود ہے، تم اپنے دل کے دروازے سے داخل ہو کر اس چمن کی سیر سے لطف اندوز ہو سکتے ہو۔

            اسی حقیقت کو قرآن حکیم میں اس طرح واضح کیا گیا ہے:  وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ.   (الذّٰرٰیت) یعنی خود تمہارے اندرمعرفت کا سامان موجود ہے مگر تم لوگ اس سے غافل ہو۔ اپنشد کے ایک جملے کا انگریزی ترجمہ اس طرح ہے:

"Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths which encompass his real self."

یعنی انسان اپنی جہالت کے باعث ان مادی غلافوں ہی کو اپنی ذات سمجھ بیٹھتا ہے جو اس کی ذات (انا یا روح) کے گرداگرد لپٹے ہوئے ہیں۔ اور یوں وہ نہ خود کو پہچان پاتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کی معرفت ضروری ہے، جیسے کہ صوفیاء کا قول ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ. «جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا» ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اپنی «انا» (self) سے غافل رہا وہ معرفت الٰہی سے بھی محروم رہا۔ یہی نکتہ ہے جو سورۃ الحشر کی آیت: ۱۹ میں اس طر ح واضح فرمایا گیا ہے:  وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ:  «ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا»۔ چنانچہ لفظ فلح کا یہ مفہوم ذہن میں رکھ کر اس آیت کو پڑھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپنی شخصیت اور ذات کے مادی غلافوں کو پھاڑ کر اپنی معنوی شخصیت اور روح کو اُجاگر کرنے اور اس کے ذریعے سے عرفانِ ذات اور پھر معرفت ِالٰہی تک پہنچنے جیسے مشکل مراحل، اہل ِایمان کامیابی سے طے کر لیتے ہیں۔ اور وہ کون سے اہل ایمان ہیں:

UP
X
<>