May 4, 2024

قرآن کریم > المؤمنون >surah 23 ayat 14

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ

پھر ہم نے اُس بوند کو جمے ہوئے خون کی شکل دے دی، پھر اُس جمے ہوئے خون کو ایک لوتھڑا بنادیا، پھر اُس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیا، پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنایا، پھر اُسے ایسی اُٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کر کھڑاہوگیا۔ غرض بڑی شان ہے اﷲ کی جو سارے کاریگروں سے بڑھ کر کاریگر ہے !

 آیت ۱۳:  ثُمَّ جَعَلْنٰــہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ:  «پھر ہم نے اسے بوند کی شکل میں ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔»

            رحم (uterus) کو ایک محفوظ ٹھکانہ قرار دیا گیا ہے، جس کی دیوار بہت مضبوط ہوتی ہے۔ نطفہ رحمِ مادر میں پہنچتا ہے اور بیضۂ انثی کے ساتھ مل کر ovum fertilized رحم کی دیوار کے اندر  embed ہو جاتا ہے، گویا دفن ہو جاتا ہے جیسے بیج زمین کے اندر دفن ہو جاتا ہے۔

 آیت ۱۴:  ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً:   «پھر ہم نے اس نطفہ کو علقہ کی شکل دے دی»

            عَلَقہ کا ترجمہ عام طور پر «جما ہوا خون» ہوتا آیا ہے جو کہ غلط ہے۔ لغوی اعتبار سے عربی مادہ علق (ع ل ق) سے معلق، تعلق، متعلق، علاقہ وغیرہ الفاظ تو مشتق ہیں لیکن اس لفظ کا جمے ہوئے خون کے مفہوم و معانی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ دراصل جس زمانے میں یہ تراجم ہوئے ہیں اس میں نہ تو dissection کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی ابھی مائیکرو سکوپ ایجاد ہوئی تھی، لہٰذا علم الجنین کے بارے میں تمام تر معلومات کی بنیاد ظاہری مشاہدے پر تھی۔ اور چونکہ ابتدائی ایام کا حمل گرنے کی صورت میں رحم سے بظاہر خون کے لوتھڑے ہی برآمد ہوتے تھے، اس لیے اس سے یہی سمجھا گیا کہ رحمِ مادر میں انسانی تخلیق کی ابتدائی شکل جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کی سی ہوتی ہے۔ آج جب ہم جنینیات (Embryology) کے بارے میں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں لفظ «عَلَقہ» پر غور کرتے ہیں تو اس کا مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ جدید سائنسی معلومات کے مطابق fertilized ovum ابتدائی مرحلے میں رحم کی دیوار کے اندر جما ہوا (embeded) ہوتا ہے، جبکہ اگلے مرحلے میں وہ اس سے اُبھر کر، bulge out کر کے دیوار کے ساتھ جونک کی طرح لٹکنے لگ جاتا ہے۔ اور یہی دراصل «علقہ» ہے۔

            فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً:   «پھر علقہ کو ہم نے گوشت کا لوتھڑا بنا دیا»

            پھر اگلے مرحلے میں یہ «علقہ» گوشت کے ایک نیم چبائے ہوئے لوتھڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بلکہ ڈاکٹر کیتھ ایل مور ( موصوف دورِ حاضر میں علم الجنین پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا ذکر بیان القرآن کے حصہ اوّل، تعارفِ قرآن کے باب پنجم میں بھی آ چکا ہے) کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کی وضاحت کے لیے کچے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور واقعتا اسے دانتوں سے چبا کر دکھایا کہ دانتوں کے نشان پڑ جانے سے اس گوشت کے ٹکڑے کی جو شکل بنی ہے بعینہِ وہی شکل اس مرحلے میں «مُضغۃ» کی ہوتی ہے۔      

            فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا:   «پس ہم نے گوشت کے اس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا»

            اور ا س کے بعد «ثُمّ» کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے:

            ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ:   «پھر ہم نے اسے ایک اور ہی تخلیق پر اٹھا دیا۔»

             آیت کے اس حصے میں معنی کا ایک جہان آباد ہے، مگر اسے بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔ عام لوگ قرآن کی ایسی بہت سی آیات کو پڑھتے ہوئے بے خبری سے یوں آگے گزر جاتے ہیں جیسے ان میں کوئی خاص بات نہ ہو،  مگر جس پر حقیقت منکشف ہوتی ہے اسے کلام اللہ کے ایک ایک حرف کے اندر قیامت مضمر دکھائی دیتی ہے۔ کتنے ہی مفسرین ہیں جو سورۃ الحدید کی تیسری آیت:  ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ:  کی تفسیر کیے بغیر آگے گزر گئے ہیں، لیکن امام رازی جب اسے پڑھتے ہیں تو ان کی نظر کسی اور ہی جہان کا نظارہ کرتی ہے، اس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں: اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذَا الْمَقَامَ مَقامٌ غَامِضٌ عَمِیْقٌ مُہِیبٌ. (جان لو کہ یہ مقام بہت مشکل، بہت گہرا اور بہت پرہیبت ہے!) یہ قرآن کا معجزاتی پہلو ہے اور اس کا تعلق دیکھنے والی آنکھ سے ہے۔ بہر حال اِن آیات کو پھر سے پڑھیے اور تخلیق کے مراحل میں «فَ» اور «ثُمَّ» کے نازک فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ غور کیجیے !یہاں «ثُمَّ» کا وقفہ ایک پورے دور کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ تخلیقی عمل کے اندرونی مراحل کے بیان کو «فَ» سے الگ کیا گیا ہے:  وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ:   یعنی مٹی کے جوہر سے نطفے کی تخلیق ایک مکمل دور ہے۔  ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ:   یہ دوسرا دور ہے۔ یعنی نطفے کا قرارِ مکین میں پہنچ کر ایک بیج کی حیثیت سے دفن ہو جانا۔  ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً:   یہ تیسرے دور کا ذکر ہے اور اس دور کے اندر تین مراحل ہیں، ہر مرحلے کے ذکر کے ساتھ «فَ» کا استعمال ہوا ہے:  فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا۔ اس کے بعد «ثُمَّ» کے ساتھ چوتھے اور آخری دور کا ذکر ہے:  ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ:  «پھر ہم نے اسے ایک اور دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا»۔ یعنی اب یہ ایک بالکل نئی مخلوق ہے۔ یہاں «بالکل نئی مخلوق» سے کیا مراد ہے؟ اس کی تفصیل اس حدیث میں ملتی ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود ہیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بایں الفاظ نقل ہوئی ہے:

((اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہُ فِیْ بَطْنِ اُمِّہِ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً، ثُمَّ یَـکُوْنُ عَلَقَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ یَـکُوْنُ مُضْغَۃً مِّثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَـیْہِ الْمَلَکُ فَیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوْحَ…))

«تم میں سے ہر ایک کی تخلیق یوں ہوتی ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس یوم تک نطفہ کی صورت میں، اس کے بعد اتنے ہی روز تک علقہ کی صورت میں، اور اس کے بعد اتنے ہی روز گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے۔ بعد ازاں اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے، پس وہ اس میں روح پھونکتا ہے…»

یعنی چالیس دن تک نطفہ، پھر چالیس دن تک علقہ اور اس کے بعد چالیس دن تک مُضغۃ، ایک سو بیس دن (چار ماہ) میں یہ تین مراحل مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں۔ وہ کولڈ سٹوریج (عالم ِارواح) سے اس کی روح کو لا کر اس مادی جسم کے ساتھ ملا دیتا ہے اور یوں ایک نئی مخلوق وجود میں آ جاتی ہے۔ یعنی اب تک وہ ایک حیوانی جسم تھا، لیکن اس روح کے پھونکے جانے کے بعد وہ انسان بن گیا۔ البتہ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے میں بھی لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ایک سو بیس دن کے بعد اس جسم میں جان ڈال دی جاتی ہے۔ یعنی روح کو «جان» (life) سمجھا گیا ہے۔ گویا چار ماہ تک تخلیقی مراحل سے گزرتا ہوا یہ وجود بے جان تھا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی یا جان اس میں پہلے دن سے ہی موجود تھی ۔ حتیٰ کہ باپ کے نطفے کا خلیہ (spermatozoon) اور ماں کا بیضہ (ovum) بھی اپنی اپنی جگہ پر زندہ وجود ہیں اور ان دونوں کے اختلاط سے وجود میں آنے والا جفتہ (zygote) بھی۔ بہر حال ایک سو بیس دن کے بعد اس جسدِ حیوانی میں «روح» پھونکی جاتی ہے، جو ایک نورانی چیز ہے اور وہی اسے حیوان سے انسان بناتی ہے۔ اور اسی تبدیلی یا تخلیقی مرحلے کو آیت زیر نظر میں «خَلْقًا اٰخَرَ» (ایک نئی تخلیق) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

            فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ:   «پس بڑا با برکت ہے اللہ، تمام تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے والا۔» 

UP
X
<>