April 25, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 2

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو سو سو کوڑے لگاؤ، اور اگر تم اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اﷲ کے دین کے معاملے میں اُن پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پر غالب نہ آئے۔ اور یہ بھی چاہئے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع اُن کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے

 آیت ۲: اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ: «زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو»

            وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ: «اور تمہیں نہ روکے ان کے ساتھ مہربانی اللہ کے دین (کی تنفیذ) کے معاملے میں »

            یہ اللہ کے دین اور اس کی شریعت کا معاملہ ہے۔ ایسے معاملے میں حد جاری کرتے ہوئے کسی کے ساتھ کسی کا تعلق، انسانی ہمدردی یا فطری نرم دلی وغیرہ کچھ بھی آڑے نہ آنے پائے۔

             اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ: «اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور یومِ آخرت پر۔»

            یہ غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے حد ہے جو نص قرآنی سے ثابت ہے۔ البتہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا رجم ہے جو سنت ِرسول سے ثابت ہے اور قرآن کے ساتھ ساتھ سنت رسول بھی شریعتِ اسلامی کا ایک مستقل بالذات ماخذ ہے۔ رجم کی سزا کا قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ شریعتِ موسوی میں یہ سزا موجود تھی اور حضور  نے سابقہ شریعت کے ایسے احکام جن کی قرآن میں نفی نہیں کی گئی اپنی امت میں جوں کے توں جاری فرمائے ہیں۔ ان میں رجم اور قتلِ مرتد کے احکام خاص طور پر اہم ہیں۔ شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے رجم کی سزا متعدد احادیث، رسول اللہ کی سنت، خلفائے راشدین کے تعامل اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے۔

            وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ: «اور چاہیے کہ ان دونوں کی اس سزا کے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔»

            اس حد کو عام پبلک میں کھلے عام جاری کرنے کا حکم ہے۔ اس سے یہ اصول ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اسلامی شریعت دراصل تعزیرات اور حدود کو دوسروں کے لیے لائقِ عبرت بنانا چاہتی ہے۔ اگر کسی مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد چپکے سے پھانسی دے دی جائے اور لوگ اسے ایک خبر کے طور پر سنیں تو ان کے ذہنوں میں اس کا وہ تاثر قائم نہیں ہو گا جو اس سزا کے عمل کو براہِ راست دیکھنے سے ہو گا۔ اگر کسی مجرم کو سرعام تختہ دار پر لٹکایا جائے تو اس سے کتنے ہی لوگوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ چنانچہ اسلامی شریعت سزاوؤں کے تصور کو معاشرے میں ایک مستقل سد راہ (deterrent) کے طور پر مؤثر دیکھنا چاہتی ہے۔ اس میں بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ ایک کو سزا دی جائے تو لاکھوں کے لیے باعث عبرت ہو۔ 

UP
X
<>