April 25, 2024

قرآن کریم > العنكبوت

العنكبوت

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

سُورۃُ الْعَنکبُوت

تمہیدی کلمات

      سورۃ العنکبوت کے بارے میں تعیین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ۵ نبویؐ میں نازل ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب مکہ میں مسلمانوں پر مشرکین کا ظلم و ستم بہت بڑھ چکا تھا۔ ا س سے پہلے تین سال تک تو مخالفین نے حضور کی دعوت کے اثرات کے بارے میں کوئی سنجیدہ ردِ عمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ اس دعوت کوچٹکیوں میں اڑانے کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران وہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتے رہے، آپؐ کو شاعر اور جادوگر کہتے رہے اور یوں آپؐ کی تضحیک کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے ہتھکنڈوں سے آپؐ کی قوتِ ارادی دم توڑ دے گی، آپؐ بددل ہو کر ہمت ہار کر بیٹھ جائیں گے اور اس طرح یہ تحریک ختم ہو جائے گی۔ لیکن ان تمام حربوں کے باوجود حضور کی دعوت کا دائرہ تھا کہ روز بروز پھیلتا ہی جا رہا تھا۔ خصوصی طور پر ان کے لیے تشویش ناک بات یہ تھی کہ آپؐ کی دعوت سے متاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد غلاموں اور اونچے گھرانوں کے نوجوانوں کی تھی۔ چنانچہ جب سردارانِ قریش کے کئی ایک غلام ایمان لے آئے اور دوسری طرف حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت عثمانبن عفان جیسے نوجوان بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے تو مشرکین کو اس دعوت کے تدارک اور ِسدباب ّکے لیے سنجیدگی سے سوچنا پڑا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جو اہم فیصلہ کیا وہ یہی تھا کہ ایسے تمام لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اور جسمانی ایذاء و تشدد کے ذریعے انہیں نیا دین چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے۔

      جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو اگرچہ نوجوان اہل ایمان بھی اپنے اپنے خاندان والوں کے ہاتھوں کسی حد تک تشدد کا نشانہ بنے، لیکن غلاموں اور بے آسرا لوگوں پر تو گویا قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ غلاموں کی حیثیت اُس معاشرے میں ڈھور ڈنگروں کی سی تھی۔ جیسے آپ نے ایک بکری خریدی اور اسے اپنے کھونٹے سے باندھ لیا۔ جب تک چاہا اس سے فائدہ اٹھایا اور جب چاہا اسے ذبح کر لیا۔ انسانی سطح پر اُن کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ کوئی آقا اپنے غلام کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے، اسے مارے، پیٹے یا جان سے مار ڈالے، اسے کوئی پوچھ نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت بلال، حضرت ابوفکیہہ اور حضرت خباب بن الارت جیسے صحابہ کے ساتھ ان کے آقاؤں نے ظلم و ستم کے ایسے ایسے طریقے آزمائے کہ ان کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

      غلاموں کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی اس خوفناک اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنے جو قریشی نہیں تھے اور کسی کے حلیف بن کر مکہ میں رہ رہے تھے۔ حضرت یاسر کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ آپؓ کا تعلق یمن سے تھا۔ آپؓ نے یمن کے عیسائیوں سے نبی آخر الزماں کی آمد کا چرچا سن رکھا تھا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کو خواب میں اشارہ بھی ملا تھا کہ مکہ میں آخری نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے۔ چنانچہ نبی مکرم کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے شوق میں آپؓ یمن کو چھوڑ کر مکہ چلے آئے اور ابوجہل کے چچا کی پناہ حاصل کرلی۔ ابوجہل کا چچا شریف آدمی تھا، اُس نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ اپنی لونڈی ُسمیہ ّسے ان کا نکاح بھی کر دیا۔ پھراللہ نے آپؓ کو ایک بیٹا بھی عطا کیا۔ جب ابوجہل کا چچا فوت ہو گیا تو یہ خاندان ابوجہل کی پناہ میں آگیا۔ حضور نے نبوت کا اعلان فرمایا تو حضرت یاسر، آپؓ کی زوجہ محترمہ حضرت سمیہ اور آپؓ کا بیٹا عمار تینوں حضور پر ایمان لے آئے۔ جب قریش نے اہل ایمان پر تشدد کرنے کی حکمت عملی اپنائی تو اس چھوٹے سے خاندان پر ابوجہل نے تشدد کی انتہا کر دی۔ اس کے نتیجے میں حضرت یاسر اور حضرت سمیہ تو شہید ہو گئے جبکہ حضرت عمار نے کلماتِ کفر کہہ کر اپنی جان بچائی، جس کا انہیں زندگی بھر افسوس رہا۔ (سورۃ النحل کی آیت ۱۰۶ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ اگر کسی کو کلمہ کفر پر مجبور کر دیا جائے لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن رہے تو اللہ معاف فرمانے والا ہے۔)

      اسی طرح حضرت خباب بن الارت پر جو قیامت گزری وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ آپؓ غریب خاندان سے تھے اور پیشے کے اعتبار سے لوہار تھے۔ ایک دن ان ہی کی بھٹی میں سے دہکتے ہوئے کوئلے لے کر انہیں زمین پر بچھایا گیا اور ان کی قمیص اتروا کر پشت کے بل کوئلوں پر لٹا دیا گیا، تاوقتیکہ آپؓ کے جسم کی چربی سے وہ کوئلے ٹھنڈے ہوئے۔

      حضرت خبابؓ بن الارت فرماتے ہیں کہ جب صورتِ حال ہمارے لیے نا قابل برداشت ہو گئی تو ایک دن ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور اس وقت خانہ کعبہ کی دیوار کے سائے میں اپنی چادر کا تکیہ لیے استراحت فرما رہے تھے۔ ہم نے عرض کیا : حضور! آپؐ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے؟ مشرکین کے تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اب ہمارے لیے نا قابل برداشت ہو گئی ہیں ۔ حضرت خبابؓ بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ بات حضور کو ناگوار گزری۔ آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :اللہ کی قسم، تم جلدی مچا رہے ہو، ابھی تم پر وہ حالات تو آئے ہی نہیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں آدھا زمین میں دبا کر آروں سے چیر ڈالا گیا، وہ زندہ آگ میں جلا دیے گئے اور انہوں نے ایسے حالات پر صبر کیا۔ تمہیں بھی بہر حال صبر کرنا ہے۔ اللہ کی قسم! وہ وقت ضرور آئے گا جب ایک سوار صنعاسے حضر موت تک سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہیں ہو گا۔

      یہ اس پس منظر کی ایک جھلک ہے جس میں اس سورت کا نزول ہوا۔ اس کی ابتدائی آیات میں حضرت خباب کے بیان کردہ مذکورہ واقعہ کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ ان آیات کے مضامین کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی انقلابی تحریک اپنے کارکنوں کی قربانیوں کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ جب بھی کسی معاشرے میں کوئی انقلابی تحریک اپنی جڑیں مضبوط کرتی دکھائی دیتی ہے تو پرانے نظام کے محافظوں کو اپنے مفادات خطرے میں پڑتے محسوس ہوتے ہیں ۔ چنانچہ وہ ایسی کسی بھی تحریک کو دبانے اور ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمانے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔ اس مشکل مرحلے میں انقلابی تحریک اپنے کارکنوں سے قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ چنانچہ جب مکہ میں حضور کی دعوت کا چرچا ہوا اور لوگ اس طرف متوجہ ہونے لگے تو مشرکین مکہ نظامِ کہنہ کے پاسبانوں کی حیثیت سے اپنی پوری قوت کے ساتھ میدان میں آ گئے۔ اس کے بعد مکہ کی گلیوں میں ظلم و ستم کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس جان گداز صورت حال میں اہل ایمان نے غیر معمولی جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔

      اس سیاق و سباق میں سورت کا پہلا رکوع خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں مکہ کے مذکورہ خوفناک حالات کے حوالے سے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے منطقی جوابات بھی فراہم کیے گئے ہیں ، لہولہان جسموں کے لیے سہارے کا سامان بھی مہیا کیا گیا ہے اور زخم خوردہ دلوں پر مرہم رکھنے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ قیامت تک کے لیے ہر انقلابی دینی تحریک اور غلبہ ٔدین کی جدوجہد کے کارکنوں کے لیے راہنما اصول بھی وضع فرما دیے گئے ہیں ۔ اس مضمون کے اعتبار سے سورۃ العنکبوت کا یہ رکوع گویا پورے قرآن میں ’’ذروۂ سنام‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ [یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ بحیثیت ِمجموعی قرآن کا ذروۂ سنام تو سورۃ البقرۃ ہے۔ حضور کا فرمان ہے: ((لِکُلِّ شَیْئٍ سَنَامٌ وَاِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ)) ’’ ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرۃ ہے۔ ‘‘] ---- مطالعہ ٔقرآن حکیم کے منتخب نصاب کے پانچویں حصہ کا پہلا درس اسی رکوع پر مشتمل ہے۔ موضوع کی اہمیت کے اعتبار سے یہ درس منتخب نصاب کے اس حصے کے لیے بمنزلہ فاتحہ ہے۔ 

UP
X
<>