April 19, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 2

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اُنہیں یونہی چھوڑ دیاجائے گا کہ بس وہ یہ کہہ دیں کہ : ’’ ہم ایمان لے آئے‘‘ اور اُن کو آزمایا نہ جائے؟

آیت ۲     اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ چھوڑ دیے جائیں گے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا؟‘‘

      تمہیدی کلمات میں بیان کی گئی حضرت خباب کی روایت کا مضمون ذہن میں رکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آیت صحابہ کرام کی مذکورہ شکایت کا جواب ہے۔ اس میں خفگی کا بالکل وہی انداز پایا جاتا ہے جو رسول اللہ نے صحابہ کی شکایت کے جواب میں اختیار فرمایا تھا۔ اہل ایمان کا ذکرعمومی انداز میں (’’النَّاس‘‘ کے لفظ سے ) فرمانا بھی ایک طرح سے عتاب اور ناراضی ہی کا ایک انداز ہے۔ بہر حال دین میں تحریکی و انقلابی جدوجہد کے حوالے سے یہ بہت اہم مضمون ہے جس کی مزید وضاحت مدنی سورتوں میں ملتی ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ میں یہی مضمون مزید واضح انداز میں بیان ہوا ہے: (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ  اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ) ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تک تم پروہ حالات وواقعات تو وارد ہوئے ہی نہیں جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں مسلط کر دی گئی تھیں ، اور وہ ہلا مارے گئے تھے، یہاں تک کہ (وقت کا) رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد! آگاہ رہو اللہ کی مدد قریب ہی ہے‘‘۔ اس کے بعد سورۂ آل عمران میں یہی بات ایک دوسرے انداز میں فرمائی گئی ہے: (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ) ’’ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں یونہی داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون واقعتا (اللہ کی راہ میں ) جہاد کرنے والے اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں‘‘۔ اور پھر سورۃ التوبہ میں اس مضمون کی مزید وضاحت کی گئی ہے: (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ) ’’ کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون ہیں جو واقعی جہاد کرنے والے ہیں ، اور جو نہیں رکھتے اللہ، اُس کے رسول اور اہل ایمان کے علاوہ کسی کے ساتھ دلی راز داری کا کوئی تعلق، اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘

      مندرجہ بالا چاروں آیات میں یہ مضمون جس انداز میں بیان ہوا ہے اس کی مثال ایک خوبصورت پودے اور اس پر کھلنے والے خوبصورت پھول کی سی ہے۔ زیر مطالعہ مکی آیت اس پودے کی گویا جڑ ہے جبکہ مذکورہ بالا تینوں مدنی آیات اس پر کھلنے والے پھول کی تین پتیاں ہیں ۔ یہاں پر جن تین آیات کا حوالہ دیا گیا ہے (البقرۃ:۲۱۴، آل عمران:۱۴۲ اور التوبۃ:۱۶) ان میں یہ عجیب مماثلت قابل توجہ ہے کہ نہ صرف ان آیات کے الفاظ میں مشابہت پائی جاتی ہے بلکہ ان میں سے ہر آیت کے نمبر شمار کاحاصل جمع ۷ ہے۔

UP
X
<>