April 18, 2024

قرآن کریم > الروم >sorah 30 ayat 27

وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ وَلَهُ الْمَثَلُ الأَعْلَى فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

اور وہی ہے جو مخلوق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُسے دوبارہ پیدا کرے گا، اور یہ کام اُس کیلئے زیادہ آسان ہے۔ اور اُسی کی سب سے اُونچی شان ہے، آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، اور وہی ہے جو اقتدار والا بھی ہے، حکمت والا بھی

آیت ۲۷   وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ: ’’اور وہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے مخلوق کو پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا اور وہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔‘‘

      یہ بعث بعد الموت کے بارے میں عقلی دلیل ہے جو قرآن میں متعدد بار دہرائی گئی ہے۔معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی اس دلیل کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی کام کا پہلی دفعہ کرنا دوسری دفعہ کرنے کے مقابلے میں نسبتاً مشکل ہوتا ہے، اور جب کسی کام کو ایک دفعہ سر انجام دے دیا جائے اور اس سے متعلق تمام مشکلات کا حل ڈھونڈ لیا جائے تو اسی کام کو دوسری مرتبہ کرنا نسبتاً بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اہل عرب جو قرآن کے مخاطب اول تھے، وہ اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اور اس پوری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے۔ ان کے اس عقیدے کا ذکر قرآن میں بہت تکرار سے ملتا ہے۔ مثلاً: (وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ) (لقمٰن:۲۵) ’’ اور اگر آپ ؐان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے!‘‘ چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں ان لوگوں کو خالص منطقی اور عقلی سطح پر یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس اللہ کے بارے میں تم مانتے ہو کہ وہ زمین وآسمان کا خالق ہے اور خود تمہارا بھی خالق ہے اس کے بارے میں تمہارے لیے یہ ماننا کیوں مشکل ہو رہا ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرے گا؟ جس اللہ نے تمہیں پہلی مرتبہ پیداکیاہے وہ آخر دوسری مرتبہ ایسا کیوں نہیں کر سکے گا؟ جبکہ کسی بھی چیز کو دوسری مرتبہ بنانا پہلے کی نسبت کہیں آسان ہوتا ہے۔

        وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ: ’’اور اُس کی شان بہت بلند ہے آسمانوں اور زمین میں ، اور وہ بہت زبردست ہے، کمال حکمت والا۔‘‘

      یہاں پر اللہ تعالیٰ کے لیے ’’مثل‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن مثل یا مثال کا جو مفہوم ہمارے ذہنوں میں ہے اُس کا اللہ کے بارے میں تصور کرنا مناسب اور موزوں نہیں ۔ اس لیے بہتر ہے کہ ’’مثل‘‘ کا ترجمہ ’’شان‘‘ یا ’’صفت‘‘ سے کیا جائے کہ اس کی شان بہت اعلیٰ اور بلند ہے یا اُس کی صفت سب سے برتر ہے۔ 

UP
X
<>