April 18, 2024

قرآن کریم > الروم >sorah 30 ayat 41

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اُس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا، تاکہ انہوں نے جو کام کئے ہیں اﷲ اُن میں سے کچھ کا مزہ اُنہیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں

آیت ۴۱   ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ: ’’بحر وبر میں فساد رونما چکا ہے، لوگوں کے اعمال کے سبب‘‘

      یہ آیت جس شان سے آج دنیا کے اُفق پر نمایاں ہوئی ہے شاید اپنے نزول کے وقت اس کی یہ کیفیت نہیں تھی۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے نہ تو دنیا کی وسعت کے بارے میں لوگوں کو صحیح اندازہ تھا اور نہ ہی ’’فساد‘‘ کی اقسام میں وہ تنوع سامنے آیا تھا جس کا نظارہ آج کی دنیا کر رہی ہے۔ آج پوری دنیا میں جس جس نوعیت کے فسادات رونما ہو رہے ہیں ان کی تفصیلات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ آج چونکہ پوری دنیا سمٹ کر ’’گلوبل ویلج‘‘ کی صورت اختیار کر چکی ہے اس لیے دنیا کے کسی بھی گوشے میں رونما ہونے والے ’’فساد‘‘ کے اثرات ہر انسان کو بھگتنا پڑ رہے ہیں ۔ چنانچہ ان حالات میں آج اس آیت کا مفہوم واضح تر ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔

        لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا: ’’تا کہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا‘‘

      اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے کہ وہ انسانوں کے سب اعمال کی سزا دنیا میں نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہو تو روئے زمین پر کوئی انسان بھی زندہ نہ بچے: (وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی) ( فاطر: ۴۵) ’’ اور اگر اللہ گرفت کرے لوگوں کی ان کے اعمال کے سبب تو اس (زمین) کی پشت پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے، لیکن وہ ڈھیل دیتا رہتا ہے ان کو ایک مقررہ مدت تک‘‘۔ اس اصول کے تحت اگرچہ اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی کی حد تک انسانوں کی زیادہ تر نافرمانیوں کو نظر انداز کرکے ان کی سزا کو مؤخر کرتا رہتا ہے لیکن بعض گناہوں یا جرائم کی گرفت وہ دنیا میں بھی کرتا ہے اور اس گرفت کا مقصد یہ ہوتا ہے :

        لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ: ’’تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘

کہ شاید اس سے کچھ لوگوں کو ہوش آ جائے اور وہ توبہ کر کے اپنی روش تبدیل کر لیں۔ آج دنیا بھر کے مسلمان جس ذلت وخواری کو اپنا مقدر سمجھے بیٹھے ہیں شاید ایسی کسی گرفت سے انہیں بھی غور کرنے کی توفیق مل جائے کہ : 

 ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں! (غالب)

      شاید ایسی کسی ٹھوکر سے وہ جاگ جائیں اور انہیں اللہ کے اس وعدے پر غور وخوض کرنے کی فرصت میسر آجائے: (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ) (آل عمران) ’’ اور تم لوگ ہی سر بلند ہو گے اگر تم (حقیقی) مؤمن ہو گے‘‘۔ اور اس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ ان کے تمام مسائل کا سبب ایمانِ حقیقی کا فقدان ہے۔ اور شاید اس طرح انہیں قرآن سے براہِ راست ہم کلام ہونے کا بھی موقع مل جائے اور خود قرآن انہیں ان کی ذلت و خواری کی وجہ بتا دے کہ تم اس حالت کو اس لیے پہنچے ہو کہ تم نے اپنے دین کے حصے بخرے کر دیے ہیں، تم دین کے صرف ان احکام پر عمل کرتے ہو جو تمہیں پسند ہیں اور جو احکام تمہاری نجی اور معاشرتی زندگی کے معمول سے مطابقت نہیں رکھتے انہیں نظر انداز کر دیتے ہو: (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا  وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ  وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ) (البقرۃ) ’’ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور دوسرے کو نہیں مانتے؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو یہ حرکت کرے تم میں سے سوائے دنیا کی زندگی کی ذلت ورسوائی کے، اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف، اور اللہ غافل نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو‘‘۔ چنانچہ موجودہ حالات کے تناظر میں ہم میں سے ہر ایک کو اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایک بڑے عذاب سے پہلے جو مہلت ہمیں دستیاب ہے اس سے فائدہ اٹھا لیں اور توبہ کر کے اپنے اعمال کی اصلاح کر لیں۔

      یہاں پر زیر مطالعہ چار سورتوں ( العنکبوت، الروم، لقمان اور السجدۃ) کے ذیلی گروپ کے بارے میں ایک اہم بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ مضامین کی خاص مشابہت کے اعتبار سے یہ سورتیں مزید دو جوڑوں پر مشتمل ہیں۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے سورۃ العنکبوت کی مناسبت سورۂ لقمان کے ساتھ ہے جبکہ سورۃ الروم کے مضامین سورۃ السجدۃ کے مضامین سے مطابقت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر اس سورت کی یہ آیت (آیت: ۴۱) اپنے مضمون کے اعتبار سے سورۃ السجدۃ کی آیت: ۲۱ کے ساتھ خصوصی مطابقت رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ سورۃ الروم کی ۶۰ آیات ہیں جبکہ سورۃ السجدۃ کی ۳۰ آیات ہیں۔ چنانچہ آیات کی تعداد کے لحاظ سے جو جگہ سورۃ الروم کی ساٹھ آیات کے اندر اس کی آیت: ۴۱ کی ہے تقریباً وہی جگہ سورۃ السجدۃ کی تیس آیات کے اندر اس کی آیت: ۲۱ کو حاصل ہے۔ اس لحاظ سے ان دونوں آیات کی باہمی مطابقت و مشابہت معنی خیز ہے۔

UP
X
<>