April 20, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 14

وَوَصَّيْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ

اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں یہ تاکید کی ہے۔ (کیونکہ) اُس کی ماں نے اُسے کمزوری پر کمزوری برداشت کر کے پیٹ میں رکھا، اور دوسال میں اُس کا دودھ چھوٹتا ہے۔ کہ تم میرا شکر اَدا کرو، اور اپنے ماں باپ کا۔ میرے پاس ہی (تمہیں ) لوٹ کر آنا ہے

آیت ۱۴  وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ: ’’اور ہم نے وصیت کی انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں ۔‘‘

      یعنی والدین کے بارے میں حسن سلوک کی تاکیدی ہدایت کی۔ پھر والدین میں سے بھی والدہ کے حق کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا، کیونکہ بچوں کی پیدائش اور پرورش کے سلسلے میں زیادہ مشقت اور تکلیف والدہ ہی کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔

        حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ: ’’اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے (اپنے پیٹ میں ) کمزوری پر کمزوری جھیل کر‘‘

        وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ: ’’اور اس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں ‘‘

      پہلے نو ماہ تک بچہ ماں کے پیٹ میں رہ کر جونک کی طرح اس کا خون چوستا رہا اور پھر پیدائش کے بعد دو سال تک مسلسل اس کے جسم کی توانائیاں دودھ کی شکل میں نچوڑتا رہا۔

        اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ: ’’کہ تم شکر کرو میرا اور اپنے والدین کا!‘‘

         اِلَیَّ الْمَصِیْرُ: ’’اور میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہو گا۔‘‘

      اب اللہ تعالیٰ اور والدین کے حقوق میں توازن کے سلسلے میں جو وضاحت اگلی آیت میں آ رہی ہے وہ ہم سورۃ العنکبوت کی آیت ۸ میں بھی پڑھ آئے ہیں ۔ اس سے ان دونوں سورتوں کے مضامین میں مشابہت اور مناسبت کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔

UP
X
<>