April 18, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 15

وَإِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

اور اگر وہ تم پر یہ زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی کو (خدائی میں ) شریک قرار دو تو اُن کی بات مت مانو، اور دُنیا میں اُن کے ساتھ بھلائی سے رہو، اور ایسے شخص کا راستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لو لگارکھی ہو۔ پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اُس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو

آیت ۱۵   وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا: ’’اور اگر وہ تم پر دباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ شریک کرو اُس چیز کو جس کا تمہارے پاس کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مانو‘‘

      یہاں والدین کے اپنی اولاد کو شرک پر مجبور کرنے کے حوالے سے ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی انتہائی کوشش کے ہیں۔ چنانچہ اس لفظ میں والدین کی طرف سے اپنا موقف منوانے کے لیے لڑنے جھگڑنے اور ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کا مفہوم موجود ہے۔ البتہ یہاں بہت واضح انداز میں بتا دیا گیا ہے کہ والدین کے تمام تر تقدس اور احترام کے باوجود انہیں اپنی حدود سے تجاوز کرنے اور اللہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ اگر والدین اپنی اولاد کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کرنے لگیں تو اولاد ان کے اس حکم کی تعمیل کسی قیمت پر نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے یہ اہم نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ یہ حکم صرف بُت پرستی کی ممانعت تک محدود نہیں بلکہ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ کے الفاظ میں ہر قسم کے شرک کی مطلق ممانعت ہے، بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ اگر والدین اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو توڑنے کا کہہ رہے ہوں تو گویا وہ شرک ہی کا حکم دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی دوسرے کو مطاع ماننا گویا اسے معبود بنا لینے کے مترادف ہے۔ جیسے اگر کوئی شخص اپنے نفس کے اُکسانے پر حرام میں منہ مارتا ہے، یعنی اللہ کے حکم کو چھوڑ کر اپنے نفس کی بات مانتا ہے تو گویا اس نے حرام دولت کو اور اپنے نفس کو معبود کا درجہ دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کا حکم بہت واضح ہے: (اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰہُ  اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا) (الفرقان) ’’کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے! تو (اے نبی!) کیا آپ ایسے شخص کی ذمہ داری لے سکتے ہیں؟‘‘

      شرک جیسے حساس مسئلے کو بہت زیادہ احتیاط اور اہتمام کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شرک کا محدود مفہوم سامنے رکھ کر اس کے بہت سے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ الحمد للہ! اس موضوع پر میں نے تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ ’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ کے موضوع پر میری چھ گھنٹے کی تقاریر کی ریکارڈنگ موجود ہے۔اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ان تقاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ان تقاریر کو اسی موضوع کے تحت کتابی صورت میں شائع بھی کیا جا چکا ہے۔

        وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا: ’’اور دنیا میں ان کے ساتھ رہو بہتر انداز میں ‘‘

      ملاحظہ کیجیے اللہ تعالیٰ کے احکام کے اندر کس قدر خوبصورت توازن پایا جاتا ہے۔ ایک طرف والدین کے حقوق ادا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے، جبکہ دوسری طرف ان کے حقوق کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ اگر والدین کافر یا مشرک ہیں تو ان کے تمام حقوق ہی ساقط ہو جائیں، بلکہ ایسی صورت میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی اگر والدین مشرک ہیں تو بھی ان کی خدمت کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو اور ان کے مؤدّب بن کر رہو۔ البتہ اگر وہ شرک پر مجبور کریں یا اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کا یہ مطالبہ نہ مانا جائے اور اس حوالے سے بھی انکار کرتے ہوئے ان کے ساتھ بد تمیزی نہ کی جائے۔

        وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ: ’’اور پیروی کرو اُس شخص کی جو میری طرف رخ کر چکا ہے‘‘

      قرآن مجید میں جہاں بھی والدین کے حقوق کی بات ہوئی ہے وہاں ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جبکہ ان کی اطاعت کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں دیا گیا۔ بہر حال اگر والدین کی اطاعت ہو گی بھی تو اللہ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہ کر ہی ہو گی۔ البتہ جہاں تک اتباع اور پیروی کا تعلق ہے تو وہ صرف اسی شخص کی جائز ہے جو ہر طرف سے منہ موڑ کر کُلی طور پر اللہ کی اطاعت میں آ چکا ہو۔ جب تک نبوت کا تسلسل قائم تھا تو یہ بات انبیاء کرام پر صادق آتی تھی۔ اب ختم نبوت کے بعد اُمت میں سے جو شخص بھی اللہ کی اطاعت اور حضور کی اتباع کرتے ہوئے لوگوں کو دین کی طرف بلائے اس آیت کی رو سے اس کا اتباع کرنا اور اس کا ساتھ دینا ضروری ہے۔

        ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ: ’’پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے، پھر میں تمہیں جتلا دوں گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔‘‘

      آخر کار تم سب نے میرے پاس ہی آنا ہے، والدین کو بھی میرے حضور حاضر ہونا ہے اور ان کی اولاد کو بھی۔ ان میں سے جس نے جو کیا ہوگا، وہ سب کچھ اسے دکھا دیا جائے گا۔

      اب اگلی آیت میں حضرت لقمان کی دوسری نصیحت کا ذکر ہے۔ ان کی پہلی نصیحت آیت: ۱۳ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے بعد دو آیات میں والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔

UP
X
<>