April 20, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 16

يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ

(لقمان نے یہ بھی کہا :) ’’ بیٹا ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو، اور وہ کسی چٹان میں ہو، یا آسمانوں میں یا زمین میں ، تب بھی اﷲ اُسے حاضر کر دے گا۔ یقین جانو اﷲ بڑا باریک بیں ، بہت باخبر ہے

آیت ۱۶   یٰـبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ: ’’اے میرے بچے! اگر وہ (کوئی اچھا یا برا عمل) رائی کے دانے کے برابر بھی ہو‘‘

      اپنی جسامت کے اعتبار سے رائی کا دانہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ مراد اس سے بہت ہی چھوٹی یا حقیر چیز ہے۔ قرآن مجید میں کسی چھوٹی یا حقیر چیز کا ذکر کرنے کے لیے حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ (رائی کے دانے) کے علاوہ بالعموم فَتِیْلاً یعنی کھجور کی گٹھلی کے ساتھ لگے ہوئے دھاگے (النساء: ۴۹) اور نَقِیْرًا یعنی کھجور کی گٹھلی کے گڑھے (النساء: ۱۲۴) جیسے الفاظ بھی آتے ہیں، لیکن رائی کا دانہ اپنی جسامت میں ان سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔

        فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللّٰہُ: ’’پھر وہ ہو کسی چٹان میں یا آسمانوں میں یا زمین کے اندر، اُسے اللہ لے آئے گا۔‘‘

      انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کے اعمال چاہے اچھے ہوں یا برے وہ بھی انسان ہی کی طرح اہم ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انسانی اعمال کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ انسان کا کوئی بھی عمل چاہے وہ کسی پہاڑ کی کھوہ میں وقوع پذیر ہوا ہو، خلاء کی پنہائیوں میں یا زمین کے پیٹ کی تاریکیوں میں سر انجام دیا گیا ہو، وہ اللہ سے چھپ نہیں سکتا۔

        اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ: ’’یقینا اللہ بہت باریک بین، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘

      یہی مضمون سورۃ الزلزال میں اس طرح بیان ہوا ہے: (فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ   وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ) ’’تو جو کوئی کرے گا ذرّہ برابر بھلائی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جو کوئی کرے گا ذرّہ برابر برائی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔‘‘

      نوٹ کیجیے! حضرت لقمان نے اپنی وصیت میں شرک اور انسانی اعمال کے لازمی نتائج کے بعد بعث بعد الموت یا جنت و دوزخ کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس لیے کہ یہ معلومات صرف وحی یا نبوت کی تعلیمات کے ذرائع سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچی تھیں۔ اس لیے ان کی نصیحتوں میں صرف وہی باتیں پائی جاتی ہیں جن تک کوئی صاحبِ حکمت شخص غور و خوض کے ذریعے پہنچ سکتا ہے ---- اب ان کی تیسری نصیحت ملاحظہ ہو:

UP
X
<>