April 25, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 19

وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ

اور اپنی چال میں اِعتدال اختیار کرو، اور اپنی آواز آہستہ رکھو۔ بیشک سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے۔‘‘

آیت ۱۹   وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ: ’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو‘‘

      یہ میانہ روی (اقتصاد) صرف ظاہری چال ہی میں نہیں بلکہ زندگی کی مجموعی ’’چال‘‘ میں بھی مطلوب ہے۔ خصوصی طور پر قرآن میں معیشت کی میانہ روی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ الفرقان میں بندۂ مومن کی پختہ (mature) اور متوازن شخصیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے: (وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا) ’’اور وہ لوگ کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ (ان کا معاملہ) اس کے بین بین معتدل ہوتا ہے۔‘‘

        وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ: ’’اور اپنی آواز کو پست رکھو۔‘‘

      خصوصی طور پر کسی بحث و تمحیص کے دوران اونچی آواز میں چیخنے کے بجائے ٹھوس دلیل کے ساتھ ُپر وقار انداز میں گفتگو کرو۔ کیونکہ عام طور پر بحث کرتے ہوئے آدمی اونچی آواز میں چیخ چیخ کر اس وقت بولتا ہے جب اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ گویا وہ آواز کے زور سے اپنی دلیل کی کمی پوری کرنا چاہتا ہے۔

        اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ: ’’یقینا سب سے نا پسندیدہ آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘

      خواہ مخواہ بلند آواز سے بولنے میں انسان کی کوئی بڑائی نہیں ہے۔ اس میں اگر کوئی بڑائی ہوتی تو اس کا سب سے زیادہ مستحق گدھا قرار پاتا جس کی آواز غیر معمولی طور پر بلند اور زور دار ہوتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گدھے کی آواز سب آوازوں سے زیادہ مکروہ اور نا پسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک معقول انسان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ گدھے کی طرح ِچلا چلا کر گفتگو کرے، بلکہ بات چیت میں انسان کا بہتر طرز عمل یہی ہے کہ وہ تحمل سے گفتگو کرے اور گفتگو میں وزن پیدا کرنے کے لیے علمی و عقلی دلیل کا سہارا لے۔

UP
X
<>