April 16, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 4

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

وہ نیک لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں ، اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، اور آخرت کا پورا یقین رکھتے ہیں

آیت ۴   الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ: ’’ جو نماز قائم کرتے ہیں ‘‘

      اب یہاں محسنین کے اوصاف کا ذکر ہے اور ان کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نما زقائم کرتے ہیں ۔

        وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ: ’’اور زکوٰۃ دیتے ہیں ‘‘

      ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ اپنے تزکیے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ سورۃ البقرۃ کی آیت: ۳ میں اس حوالے سے (وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ) کے الفاظ آئے ہیں ، جبکہ یہاں باقاعدہ ’’زکوٰۃ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔

        وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ: ’’اور آخرت پر یہی لوگ پختہ یقین رکھتے ہیں ۔‘‘

      ’’ایمان بالآخرۃ‘‘ کی اہمیت کے پیش نظر اس کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ یہاں ’’یقین‘‘ کا ذکر ہواہے۔ دراصل آخرت کا عقیدہ وہ عامل (factor) ہے جو انسان کے عمل اور کردار پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اس ضمن میں ایک بندۂ مسلمان سے یقین والے ایمان کا تقاضا کرتا ہے۔

UP
X
<>