April 18, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 6

النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُوْلُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلاَّ أَن تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا

ایمان والوں کیلئے یہ نبی اُن کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں ، اور ان کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں ۔ اس کے باوجود اﷲ کی کتاب کے مطابق پیٹ کے رشتہ دار دوسرے مومنوں اورمہاجرین کے مقابلے میں ایک دوسرے پر (میراث کے معاملے میں ) زیادہ حق رکھتے ہیں ۔ اِلّا یہ کہ تم اپنے دوستوں (کے حق میں کوئی وصیت کر کے اُن) کے ساتھ کوئی نیکی کر لو۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے

آیت ۶    اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ: ’’یقینا نبیؐ کا حق مؤمنوں پر خود اُن کی جانوں سے بھی زیادہ ہے‘‘

        تمام اہل ِایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانوں سے زیادہ حضور  کی جان کی فکر کریں اور آپؐ کو اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر محبوب رکھیں۔ نبی اکرم  کا یہ فرمان صحیحین میں ذرا سے لفظی فرق کے ساتھ نقل ہوا ہے:

((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ))

’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کو اُس کے باپ، اُس کی اولاد اور سب انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

        وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ: ’’اور نبی ؐ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘

        یہاں پر اس فقرے سے پہلے ’’وَھُوَ اَبٌ لَّھُمْ‘‘ کے الفاظ کو محذوف سمجھا جانا چاہیے، یعنی حضور  مؤمنوں کے لیے بمنزلہ باپ کے ہیں۔ اس سلسلے میں آپؐ کا فرمان بھی ہے کہ: ((اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ)) یعنی تم سب کے لیے میری حیثیت والد کی سی ہے۔ قرآن مجید کے ان الفاظ کی رو سے نبی کریم  کی بیویاں مسلمانوں کے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں قابل احترام ہیں۔ چنانچہ ازواجِ مطہراتl کے ناموں کے ساتھ ’’اُمّ المؤمنینؓ‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہk، اُمّ المؤمنین حضرت عائشہk، اُمّ المؤمنین حضرت صفیہk، اُمّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحشk!

        وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ: ’’اوررحمی رشتے رکھنے والے، اللہ کی کتاب کے مطابق، مؤمنین و مہاجرین کی نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں‘‘

        اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِکُمْ مَّعْرُوْفًا: ’’سوائے اس کے کہ تم لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی ُحسن ِسلوک کرنا چاہو۔‘‘

        اس سے پہلے ’’اُولُوا الْاَرْحَامِ‘‘ کے بارے میں یہی الفاظ سورۃ الانفال کی آخری آیت میں بھی آچکے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کے قانون میں رحمی اور خونی رشتے دوسرے تمام رشتوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یہاں پر مؤمنین و مہاجرین کا ذکر کر کے مدینہ کے مقامی معاشرے میں ایک مخصوص صورتِ حال کی بھی وضاحت کر دی گئی کہ اگر چہ تمہارے مہاجرین اور انصار کے درمیان ’’مؤاخات‘‘ کے تحت بے مثال رشتے قائم ہو چکے ہیں اور تم لوگوں نے ان رشتوں کے حوالے سے ایثار کی نئی نئی مثالیں بھی قائم کر کے دکھائی ہیں، لیکن اللہ کے قانونِ وراثت میں ایسے رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ قانونِ وراثت میں نہ تو انصار و مہاجرین جیسے کسی بھائی چارے کا لحاظ ہو گا اور نہ ہی ُمنہ بولے رشتوں کے لیے کوئی حصہ مخصوص کیا جا ئے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنے تعلقات کی بنا پر کسی دینی بھائی، عزیز یا دوست کو کوئی چیز تحفۃً دینا چاہے یا کسی کے حق میں کوئی چیزہبہ کرنا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔

        کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا: ’’یہ سب باتیں (پہلے سے) کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔‘‘

        کتاب میں لکھے ہوئے سے مراد لوحِ محفوظ یا اس موضوع پر تورات کے احکام بھی ہو سکتے ہیں اور خود قرآنی احکام بھی، جو اس سے پہلے سورۃ النساء اور سورۃ الانفال میں نازل ہو چکے تھے۔ 

UP
X
<>