April 25, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 7

وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا

اور (اے پیغمبر !) وہ وقت یاد رکھو جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا تھا، اور تم سے بھی، اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابنِ مریم سے بھی۔ اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا تھا

آیت ۷    وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَہُمْ: ’’اور (یاد کرو) جب ہم نے انبیاء سے ان کا عہد لیا تھا‘‘

        ’’میثاق النبیین‘‘ کا ذکر اس سے پہلے سورۂ آل عمران کی آیت: ۸۱ اور ۸۲ میں بھی آ چکا ہے۔

        وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ: ’’اور آپؐ سے بھی، اور نوحؑ، ابراہیم، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی۔‘‘

        وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا: ’’اور ان سب سے ہم نے بڑا گاڑھا قول و قرار لیا تھا۔‘‘

        یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق ِتوجہ ہے کہ اگر کوئی شخص ارواح کے علیحدہ وجود کا منکر ہو اور یہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو کہ بنی نوع انسان کی تمام ارواح پہلے پیدا کر دی گئی تھیں تو اس کے لیے اس آیت میں مذکور میثاق کی توجیہہ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ بہر حال قرآن میں واضح طور پر بتا یا گیا ہے کہ ارواح سے دو عہد لیے گئے۔ ان میں سے ایک عہد کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت: ۱۷۲ میں ہے، جسے ’’عہد ِالست‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ عہد بلا تخصیص تمام انسانی ارواح سے لیا گیا تھا۔ دوسرے عہد کا ذکر آیت زیر مطالعہ اور سورۂ آل عمران کی آیت: ۸۱ میں ہے جو صرف انبیاء کی ارواح سے اضافی طور پر لیا گیا تھا۔ اس عہد میں روحِ محمد(علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) بھی موجود تھی اور دوسرے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح بھی۔ جو لوگ ارواح کے علیحدہ وجود کو تسلیم نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ عہد کا یہ ذکر استعا راتی انداز میں ہوا ہے۔ لیکن اگر ان کا یہ موقف تسلیم کر لیا جائے تو پھر قرآن کے تمام احکام ہی استعارہ بن کر رہ جائیں گے اورحقیقت ان استعاروں میں گم ہو جائے گی۔ 

UP
X
<>