April 20, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 9

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا

اے ایمان والو ! یادکرو اﷲ نے اُس وقت تم پر کیسا انعام کیا جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے تھے، پھر ہم نے اُن پر ایک آندھی بھی بھیجی، اور ایسے لشکر بھی جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے۔ اور تم جو کچھ کر رہے تھے، اﷲ اُس کو دیکھ رہا تھا

        اب دوسرے اور تیسرے رکوع میں غزوہ احزاب کا ذکر ہے۔ یہ غزوہ ۵ ہجری میں ہوا اور اس کی منصوبہ بندی میں کلیدی کردار مدینہ سے نکالے گئے یہودی قبیلہ بنو نضیر کے سرداروں نے ادا کیا۔ بنو نضیر کو عہد شکنی کی سزا کے طور پر ۴ ہجری میں مدینہ سے نکال دیا گیا تھا۔ مدینہ سے نکلنے کے بعد وہ لوگ خیبر میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ وہ نہ صرف مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ اگر مسلمانوں کا قلع قمع ہو جائے تو انہیں دوبارہ مدینہ میں آباد ہونے کا موقع مل جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے بڑی تگ ودو سے عرب کی تمام مسلم مخالف قوتوں کو متحد کر کے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ابو عامر راہب (جس کا تذکرہ اس سے پہلے سورۃ التوبہ کے مطالعے کے دوران مسجد ضرار کے حوالے سے آیت: ۱۰۷ کی تشریح کے ضمن میں ہو چکا ہے) کی مدد سے قریش ِمکہ، نجد کے بنو غطفان اور عرب کے دیگر چھوٹے بڑے قبائل سے رابطہ کیا۔ اپنی اس مہم کے نتیجے میں وہ لگ بھگ بارہ ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک بہت بڑا لشکر تیار کرنے اور اس کو مدینہ پر چڑھا لانے میں کامیاب ہو گئے۔ عربوں کے مخصوص قبائلی نظام کی تاریخ کو مد نظر رکھا جائے تو اس زمانے میں اتنے بڑے پیمانے پر لشکر کشی ایک انہونی سی بات تھی۔

        دوسری طرف مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد مشکل سے تین ہزار تھی اور اس میں بھی منافقین کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ ایک بہت طاقتور یہودی قبیلے بنو قریظہ کی مدینہ میں موجودگی بھی ایک بہت بڑے خطرے کی علامت تھی۔ مدینہ میں ان لوگوں نے مضبوط گڑھیاں بنا رکھی تھیں۔ اس سے پہلے مدینہ کے دو یہودی قبائل بنو قینقاع اور بنو نضیر میثاقِ مدینہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں سے غداری کر چکے تھے۔ اس پس منظر میں اس طاقتور یہودی قبیلے کی طرف سے بھی نہ صرف غداری کا اندیشہ تھا، بلکہ حملہ آور قبائل کے ساتھ ان کے خفیہ گٹھ جوڑ کے بارے میں ٹھوس اطلاعات بھی آ چکی تھیں۔ ان حالات میں مٹھی بھر مسلمانوں کے لیے اتنے بڑے لشکر سے مقابلہ کرنا بظاہر ممکن نہیں تھا۔

        اس صورت حال میں حضور  نے جب صحابہؓ سے مشورہ کیا تو حضرت سلمان فارسی کی طرف سے خندق کھودنے کی تجویز سامنے آئی۔ حضرت سلمان کا تعلق ایران سے تھا۔ آپؓ نے ایران میں رائج اس مخصوص طرزِ دفاع کے بارے میں اپنی ذاتی معلومات کی روشنی میں یہ مشورہ دیا جو حضور  نے پسند فرمایا۔ محل وقوع کے اعتبار سے مدینہ کی آبادی تین اطراف سے قدرتی طور پر محفوظ تھی۔ مشرق اور مغرب میں حرات (لاوے کی چٹانوں) پر مشتمل علاقہ تھا۔ اس علاقے میں اونٹوں اور گھوڑوں کی نقل و حرکت نہ ہو سکنے کی وجہ سے ان دونوں اطراف سے کسی بڑے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ عقب میں جنوب کی طرف بنو قریظہ کی گڑھیاں تھیں اور چونکہ ان کے ساتھ حضور  کا باقاعدہ معاہدہ تھا اور ابھی تک ان کی طرف سے کسی بد عہدی کا اظہار نہیں ہوا تھا اس لیے بظاہر یہ سمت بھی محفوظ تھی۔ اس طرح مدینہ کی صرف شمال مغربی سمت میں ہی ایسا علاقہ تھا جہاں سے اجتماعی فوج کشی کا خطرہ باقی رہ جاتا تھا۔ اس لیے اس علاقہ میں حضور  نے خندق کھودنے کا فیصلہ فرمایا۔ خندق کا مقصد اس سمت سے کسی بڑے حملے، خصوصاً گھڑ سوار دستوں کی یلغار کو نا ممکن بنانا تھا۔ اگر یکبارگی کسی بڑے حملے کا امکان نہ رہتا تو انفرادی طور پر خندق پار کرنے والے جنگجوؤں کے ساتھ آسانی سے نپٹا جا سکتا تھا۔

        حضور  کے حکم سے خندق کی کھدائی کا کام شروع ہو گیااو ر چھ دن کے اندر اندر یہ خندق تیار ہو گئی۔ لیکن خندق تو محض ایک مسئلے کا حل تھا، جبکہ حالات تھے کہ انسانی تصور سے بھی بڑھ کر گھمبیر تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے لشکر سے مقابلہ، منافقین کی مدینہ کے اندر آستین کے سانپوں کی حیثیت سے موجودگی، شدید سردی کا موسم، قحط کا زمانہ، رسد کی شدید کمی اور یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی طرف سے بد عہدی کا خدشہ! غرض خطرات و مسائل کا ایک سمندر تھا جس کی خوفناک لہریں پے درپے مسلمانوں پر اپنے تھپیڑوں کی یلغار کیے بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے صبر اور امتحان کے لیے ایک بہت ہی سخت اور خوفناک صورت پیدا کر دی تھی۔

        اسی دوران حضرت نعیم بن مسعود hجن کا تعلق بنوغطفان کی شاخ اَشجع قبیلے سے تھا، حضور  سے ملنے مدینہ آئے اور عرض کیا کہ میں اسلام قبو ل کر چکا ہوں مگر اس بارے میں ابھی تک کسی کو علم نہیں ۔ اگر آپ  مجھے اجازت دیں تو میں بڑی آسانی سے حملہ آور قبائل اور بنو قریظہ کے مابین بد اعتمادی پیدا کر سکتا ہوں۔ واضح رہے کہ بنوقریظہ اور حملہ آور قبائل کے مابین سلسلہ ٔجنبانی کا آغاز ہو چکا تھا۔ بنونضیر کا یہودی سردار حُیّ بن اخطب بنوقریظہ کے پاس پہنچا تھا اور انہیں مسلمانوں کے ساتھ بدعہدی پر آمادہ کر چکا تھا۔ اس طر ح بنوقریظہ عہد شکنی کے مرتکب ہو چکے تھے۔ چنانچہ حضور  کی اجازت سے حضرت نعیم بن مسعود بنوقریظہ کے پاس گئے اور انہیں سمجھایا کہ دیکھو محمد  کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اگر تم ان سے عہد شکنی کر کے حملہ آور قبائل کا ساتھ دو گے تو عین ممکن ہے کہ تم اپنی توقعات کے مطابق مسلمانوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاؤ۔ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ اگر یہ منصوبہ ناکام ہوا تو تمہارا کیا بنے گا؟ آخر اس کا امکان تو موجود ہے نا، خواہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہو!ایسی صورت میں باہر سے آئے ہوئے سب لوگ تو محاصرہ اٹھا کر چلتے بنیں گے اور تمہیں مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ حملہ آور قبائل کا ساتھ دینے سے پہلے تم لوگ اپنی حفاظت کی ضمانت کے طور پر ان سے کچھ افراد بطور یرغمال مانگ لو۔

        اس کے بعد حضرت نعیم حملہ آور قبائل کے سرداروں کے پاس گئے اور انہیں خبردار کیا کہ بنو قریظہ تم لوگوں سے مخلص نہیں، وہ تم سے کچھ آدمی بطور یرغمال مانگنے کا منصوبہ بنارہے ہیں تا کہ تمہارے آدمی مسلمانوں کے حوالے کر کے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلا سکیں۔ چنانچہ تم لوگ ان سے خبردار رہنا اور کسی قیمت پر بھی اپنے آدمی ان کے سپرد نہ کرنا! حملہ آور قبائل اور بنو قریظہ کے درمیان مسلمانوں پر مشترکہ حملے کے بارے میں معاہدہ طے پانے ہی والاتھا، لیکن معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے جب بنو قریظہ نے حملہ آور قبائل سے کچھ افراد بطور ضمانت مانگے تو انہوں نے ان کا یہ مطالبہ رد کر دیا۔ اس طرح فریقین کے اندر بد اعتمادی کی فضا پیدا ہو گئی اور مسلمانوں کے خلاف ایک انتہائی خطرناک منصوبہ ناکام ہو گیا۔

        بنو قریظہ کی طرف سے عدم تعاون کے بعد حملہ آور لشکر کی کامیابی کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ دوسری طرف انہیں موسم کی شدت اور رسد کی قلت کی وجہ سے بھی پریشانی کا سامنا تھا۔ ان حالات میں ایک رات قدرتِ الٰہی سے شدید آندھی آئی جس سے ان کے کیمپ کی ہر چیز درہم برہم ہو گئی۔ خیمے اُکھڑ گئے، کھانے کی دیگیں الٹ گئیں اور جانور دہشت زدہ ہو گئے۔ اس غیبی وار کی شدت کے سامنے ان کی ہمتیں بالکل ہی جواب دے گئیں۔ چنانچہ اسی افراتفری کے عالم َمیں تمام قبائل نے واپسی کی راہ لی۔

        یہ محاصرہ تقریباً پچیس دن تک جاری رہا۔ مسلمانوں کے لیے تویہ ایک بہت سخت امتحان تھا ہی، جس سے وہ سرخرو ہو کر نکلے، لیکن دوسری طرف ا س آزمائش سے منافقین کے نفاق کا پردہ بھی چاک ہو گیااور ایک ایک منافق کا ُخبث ِباطن اس کی زبان پر آ گیا۔ یہی دراصل اس آزمائش کا مقصد بھی تھا: (لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ) (الانفال : ۳۷) ’’ تاکہ اللہ ناپاک کو پاک سے چھانٹ کر الگ کر دے‘‘ ---- سورۃ العنکبوت کے پہلے رکوع میں یہی اصول اور قانون اللہ تعالیٰ نے سخت تاکیدی الفاظ میں دو دفعہ بیان فرمایا ہے۔ پہلے فرمایا: (فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ( ’’چنانچہ اللہ ظاہر کر کے رہے گا اُن کو جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔‘‘ پھر اس کے بعد دوبارہ فرمایا: (وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ( ’’اور یقینا اللہ ظاہر کر کے رہے گا سچے اہل ایمان کو، اور ظاہر کر کے رہے گا منافقین کو بھی!‘‘

        اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح ۵نبویؐ میں مکہ کے اندر غلاموں، نوجوانوں اور بے سہارا مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا (اس کی تفصیل سورۃ العنکبوت کے پہلے رکوع کے مطالعے کے دوران گزر چکی ہے) بالکل اسی طرح ۵ ہجری میں مدینہ کے اندر بھی مسلمانوں کو غزوئہ خندق کی صورت میں سخت ترین آزمائش سے دو چار ہونا پڑا۔ بلکہ اس ضمن میں میری رائے (واللہ اعلم) تو یہ ہے کہ نبی اکرم  پر ذاتی طور پر سب سے مشکل وقت آپؐ کے سفر ِطائف کے دوران آیا تھا، جبکہ مسلمانوں کو اجتماعی سطح پر شدید ترین تکلیف دہ صورت حال کا سامنا غزوئہ خندق کے موقع پر کرنا پڑا۔

آیت ۹    یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُم: ’’اے اہل ِایمان! یاد کرو اللہ کے اُس انعام کو جو تم لوگوں پر ہوا‘‘

        اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوْدٌ: ’’جب تم پر حملہ آور ہوئے بہت سے لشکر‘‘

        یہ لشکر مدینہ پر چاروں طرف سے چڑھ آئے تھے۔ بنو غطفان اور بنو خزاعہ کے لشکروں نے مشرق کی طرف سے چڑھائی کی، جنوب مغرب کی طرف سے قریش ِمکہ حملہ آور ہوئے، جبکہ شمال کی جانب سے انہیں بنو نضیر اور خیبر کے دوسرے یہودی قبائل کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔

        فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا: ’’تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی اور ایسے لشکر بھی جو تم نے نہیں دیکھے۔‘‘

        یعنی آندھی کی کیفیت تو تم لوگوں نے بھی دیکھی تھی، لیکن اس کے علاوہ ہم نے ان پر فرشتوں کے لشکر بھی بھیجے تھے جو تم کو نظر نہیں آئے۔

        وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا: ’’اور جو کچھ تم لوگ کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔‘‘

        اس ایک جملے میں محاصرے کے دوران ہر فرد کے رویے کا احاطہ کر دیا گیا ہے۔ اس دوران کس کا ایمان غیر متزلزل رہا، کس کی نیت میں نفاق تھا اور کون اپنے نفاق کو زبان پر لے آیا، اللہ کو سب معلوم ہے۔ یہ محاصرہ تقریباً پچیس دن تک رہا۔ اس دوران اِکا دُکا ّمقامات پر معرکہ آرائی بھی ہوئی۔ اس حوالے سے حضرت علی اور عرب کے مشہور پہلوان عبد ِوُدّ کے درمیان ہونے والا مقابلہ تاریخ میں بہت مشہورہے۔ عبد وُدّ پورے عرب کا مانا ہوا شہسوار تھا۔ اس کی عمر نوے ّسال تھی مگر وہ اس عمر میں بھی ہزار جنگجوؤں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ کوئی اکیلا شخص اس کے مقابلے میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ گھوڑے کو بھگاتے ہوئے ایک ہی زقند میں خندق پار کرنے میں کامیاب ہو گیااور تن ِتنہا اس طرف آ کر دعوتِ مبارزت دی کہ تم میں سے کوئی ہے جو میرا مقابلہ کرے؟ ادھر سے حضرت علی اس کے مقابلے کے لیے تیار ہوئے۔

        حضرت علیؓ کے سامنے آنے پر اُس نے کہا کہ میں اپنے مقابل آنے والے ہر شخص کو تین باتیں کہنے کا موقع دیتا ہوں اور ان میں سے ایک بات ضرور قبول کرتا ہوں۔ اس لیے تم اپنی تین خواہشات کا اظہار کرو۔ اس پر حضرت علی نے کہا کہ میری پہلی خواہش تو یہ ہے کہ تم ایمان لے آؤ۔ اُس نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ حضرت علیؓ نے اپنی دوسری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم جنگ سے واپس چلے جاؤ! اُس نے کہا کہ یہ بھی ممکن نہیں۔ ان دونوں باتوں سے انکار پر آپؓ نے فرمایا کہ پھر آؤ اور مجھ سے مقابلہ کرو! اس پر اس نے ایک بھر پور قہقہہ لگاتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ آج تک پورے عرب میں اس کے سامنے کسی کو ایسا کہنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ بہر حال دو بدو مقابلے میں حضرت علی نے اسے واصل ِجہنم کر دیا۔ اس طرح کے اِکا دُکا انفرادی مقابلوں کے علاوہ دونوں لشکروں کے درمیان کسی بڑے اجتماعی معرکے کی نوبت نہیں آئی۔

        محاصرے کے غیر متوقع طور پر طول کھینچنے سے کفار کے لشکر میں روز بروزبد دلی پھیلتی جا رہی تھی۔ اس دوران حضرت ُنعیم بن مسعود اشجعی hکی حکمت عملی سے بھی بنو قریظہ اور حملہ آور قبائل کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہو گئی۔ طویل محاصرے کے بعد اچانک خوفناک آندھی نے بھی اپنا رنگ دکھایا۔ اس پر مستزاد فرشتوں کے لشکروں کی دہشت تھی جس کی کیفیت کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس سب کچھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے لشکر کو اپنے مقاصد حاصل کیے بغیر ناکام و نا مراد لوٹنا پڑا ---- آئندہ آیات میں محاصرے کے دوران کی صورتِ حال پر مزید تبصرہ کیا جا رہا ہے:

UP
X
<>