April 23, 2024

قرآن کریم > فاطر >sorah 35 ayat 22

وَمَا يَسْتَوِي الأَحْيَاء وَلا الأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ

اور زندہ لوگ اور مردے برابر نہیں ہو سکتے، اور اﷲ تو جس کو چاہتا ہے، بات سنا دیتا ہے، اور تم اُن کو بات نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہیں

آیت ۲۲ وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ: ’’اور نہ برابر ہو سکتے ہیں زندہ اور مردہ لوگ۔‘‘

        یہاں مردوں سے مراد وہ مردے نہیں جو قبروں میں دفن ہیں، بلکہ یہ ان جیتے جاگتے انسانوں کا تذکرہ ہے جن کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں۔ اگرچہ جسمانی اعتبار سے تو ایسے لوگ زندوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ چلتے پھرتے مقبرے اور تعزیے ہیں، کیونکہ ان کی انسانیت مر کران کے جسموں کے اندر دفن ہو چکی ہے۔ اسی طرح یہاں زندوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی روحیں اور جن کے دل زندہ ہیں ۔ زندگی کے اس فلسفے کو میر در ؔد نے اس طرح بیان کیا ہے: ؎

مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے         کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے!

        اگر کسی شخص کا دل مر گیا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اس کی روح دم توڑ گئی تو انسانی سطح پر اس شخص کی موت واقع ہو گئی۔ اب اگر وہ زندہ ہے تو حیوانی سطح پر زندہ ہے۔ جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں اور زندگی کی دوسری ضروریات و خواہشات پوری کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح اب وہ بھی زندگی بسر کر رہا ہے، مگر یہ زندگی ایک انسان کی زندگی ہر گز نہیں ہے۔ مثلاً ابو جہل بظاہر اچھی بھلی زندگی بسر کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا انسان چونکہ زندہ نہیں تھااس لیے نہ تو وہ آفتابِ نبوت کو دیکھ سکا، نہ اس کی تمازت محسوس کر سکا اور نہ ہی اس کی روشنی سے مستفیض ہو سکا۔

        اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ: ’’یقینا اللہ سناتا ہے جس کو چاہتا ہے، اور (اے نبی !) آپ نہیں سنا سکتے انہیں جو قبروں کے اندر ہیں۔‘‘

        قبروں میں مدفون سے مراد یہاں وہی لوگ ہیں جن کے جسم اپنی ُمردہ روحوں کے چلتے پھرتے مقبرے بن چکے ہیں۔ 

UP
X
<>