April 19, 2024

قرآن کریم > فاطر >sorah 35 ayat 32

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ

پھر ہم نے اس کتا ب کا وارث اپنے بندوں میں سے اُن کو بنایا جنہیں ہم نے چن لیا تھا۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں ، اور اُنہی میں سے کچھ ایسے ہیں جو درمیانے درجے کے ہیں ، اور کچھ وہ ہیں جو اﷲ کی توفیق سے نیکیوں میں بڑھے چلے جاتے ہیں ۔ اور یہ (اﷲ کا) بہت بڑا فضل ہے

آیت ۳۲    ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا: ’’پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے ُچن لیا۔‘‘

        یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو کتاب کی وراثت کے لیے چن لیا ہے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ الحج کی آخری آیت میں واضح تر انداز میں آ چکا ہے: (وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ  ہُوَ اجْتَبٰاکُمْ: ’’اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسے کہ اُس کے لیے جہاد کا حق ہے، اس نے تمہیں چن لیا ہے‘‘۔ سورۃ الحج میں اس مفہوم کے لیے لفظ ’’اِجْتَبٰی‘‘ استعمال ہوا ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں لفظ ’’اِصْطَفٰی‘‘ آیا ہے۔ سورۃ الحج کے مطالعے کے دوران بھی ذکر ہوا تھا کہ اجتباء اور اصطفاء دونوں قریب المفہوم الفاظ ہیں ، لیکن لغوی مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں میں ایک لطیف سا فرق بھی ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے آپ انگریزی کے دو الفاظ to select اور to choose کو ذہن میں رکھیے۔  chooseمیں پسند(choice) کارفرما ہوتی ہے اور اس کا تعلق ’’ذوق‘‘ سے ہے کہ کوئی اپنے ذوق کے مطابق کیا پسند (choose) کرتا ہے، جبکہ انتخاب (selection) ہمیشہ کسی مقصد کے لیے ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو اس طرح واضح کیا جا سکتا ہے:

 - and - choice out of something selection for something 

        ان دونوں الفاظ کے مذکورہ معانی کو اگرامت مسلمہ پرمنطبق کریں تو یہ اہم حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس امت کے اجتباء (selection) میں ایک عظیم مقصد کارفرماہے جبکہ اصطفاء (choice) کے حوالے سے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ نبی اکرم  کے لیے بھی آئے ہیں (محمد مصطفی اور احمد مجتبیٰ) اور مذکورہ دونوں آیات (زیرمطالعہ آیت اورسورۃ الحج کی آخری آیت) کے حوالے سے حضور  کی اُمت کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔

        بہر حال اس اُمت کو پسندیدہ (chosen) قرار دے کر اجتباء (selection) کے اعزاز سے نواز تو دیا گیا لیکن بعد میں کیا ہوا؟

        فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ: ’’تو ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘

        یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو اللہ کی کتاب اور محمد  کو اللہ کا رسول تو مانتے ہیں ، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت ِرسول  کی پیروی میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

        سورۃ الشورٰی میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے: (وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ) یعنی انبیاء ؑکے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے جاتے ہیں وہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

        وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ: ’’اور ان میں کچھ درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں۔‘‘

        یعنی ایسے لوگ جو نیکی بھی کرتے ہیں اور ان سے برائی بھی سرزد ہو جاتی ہے۔ سورۃ التوبہ میں ایسے اہل ِایمان کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے : (خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا) (آیت ۱۰۲) ’’انہوں نے اچھے اور برے اعمال کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔‘‘

        وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ: ’’اور ان میں سے کچھ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں ، اللہ کی توفیق سے۔‘‘

        ان میں سے کچھ ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جو اللہ کی عطا کردہ توفیق سے دین کی خدمت کرنے، حق کی دعوت کو پھیلانے، اللہ کی کتاب کا حق ادا کرنے اورہر اچھے عمل میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔

        ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ: ’’یہی بہت بڑی فضیلت ہے۔‘‘ 

UP
X
<>