April 23, 2024

قرآن کریم > ص >sorah 38 ayat 1

ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ

صٓ، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی

آیت ۱:   صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ:  ’’ص‘‘ قسم ہے اس قرآن کی جو ذکر والا ہے۔‘‘

        یہاں  پر پہلے حرف یعنی صٓ پر آیت مکمل نہیں  ہوئی بلکہ یہ حرف پہلی آیت کا حصہ ہے۔  اسی طرح سورۂ قٓ اور سورۂ  نٓ کے آغاز میں  بھی ایک ایک حرف ہے اور ان دونوں  سورتوں  میں  بھی ایسا ہی ہے کہ اکیلا حرف پہلی آیت کا حصہ ہے نہ کہ الگ مستقل آیت۔ البتہ کئی سورتوں  میں  آغاز کے دو حروف پر آیت مکمل ہو جاتی ہے۔  مثلاً طٰہٰ‘  یٰسٓ اور حٰمٓ  مستقل آیات ہیں۔  اس کے علاوہ کئی ایسی سورتیں  بھی ہیں  جن کے آغاز میں  تین تین حروف مقطعات ہیں  لیکن وہ حروف الگ آیت کی حیثیت سے نہیں  بلکہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔  مثلاً الٓــــرٰ۔  اس کے برعکس بہت سی سورتوں  کے آغاز میں  تین حروف مقطعات ایک مکمل آیت کے طور پر بھی آئے ہیں‘  مثلاً  الٓـــــمّٓ۔  یہاں  ان مثالوں  سے دراصل یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کے یہ معاملات توقیفی  (حضور  کے بتانے پر موقوف)   ہیں‘  کسی کے اجتہاد یا گرامر کے کسی اصول سے ان کا تعلق نہیں  ہے۔  ’’بیان القرآن‘‘  کے آغاز میں  تعارفِ قرآن کے عنوان کے تحت اس موضوع کی وضاحت کی جا چکی ہے۔  

         جہاں  تک سورئہ صٓ کی پہلی  آیت کے مضمون کا تعلق ہے اس میں  ’’ذکر والے‘‘  قرآن کی قسم کھائی گئی ہے۔  اس سے پہلے ہم کئی ایسی آیات بھی پڑھ چکے ہیں  جن میں قرآن کو ’’الذِّکْر‘‘  یا ’’ذِکْر‘‘  کہا گیا ہے۔  سورۃ الحجر کی یہ آیت اس حوالے سے بہت اہم ہے:  (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ) ’’یقینا ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘ ۔  سورۃ الانبیاء میں  فرمایا گیا:  لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ’’ (اے لوگو!)  اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے‘ اس میں  تمہارا ذکر ہے‘ تو کیا تم عقل سے کام نہیں  لیتے!‘‘ بہر حال ’’ذکر‘‘ کے معنی یاددہانی کے ہیں۔  اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ میں   القرآن ذی الذکرکا مفہوم یہ ہے کہ یہ قرآن یاد دہانی  (reminding) کا حامل ہے‘  یاد دہانی سے معمور ہے۔  

        قرآن کی قسم کے بارے میں  یہاں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کا ’’مقسم علیہ‘‘  محذوف ہے۔  یعنی ذکر والے قرآن کی قسم کس بات پر کھائی گئی ہے‘ اس کا ذکر نہیں  ہے۔  اس نکتہ کی وضاحت قبل ازیں  سورۂ یٰسٓ کی آیت ۳ کے تحت یوں  کی جا چکی ہے کہ قرآن میں  جہاں  جہاں  بھی قرآن کی قسم کے بعد اس قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے‘  ان تمام مقامات پر سورۂ  یٰسٓ کی آیت ۳ ہی کو ان تمام قسموں  کا مقسم علیہ تصور کیا جائے گا۔ سورۂ  یٰسٓ  کے آغاز میں  قرآن کی قسم اور اس قسم کے مقسم علیہ کا ذکر یوں  ہوا ہے: (یٰسٓ  وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ  اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) ’’ یٰسٓ‘ قسم ہے قرآن حکیم کی  (کہ اے محمد )  یقینا آپ مرسلین میں  سے ہیں‘‘ ۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ کے بعد بھی  اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کے کلمات کو محذوف مانتے ہوئے پورے جملے کا مفہوم یوں  تصور کیا جائے گا: ’’اے محمد  یہ ذکر والا قرآن گواہ ہے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

UP
X
<>