April 23, 2024

قرآن کریم > ص >sorah 38 ayat 4

وَعَجِبُوا أَن جَاءهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ

اور ان (قریش کے) لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ ایک خبردار کرنے والا اُنہی میں سے آگیا۔ اور ان کافروں نے یہ کہہ دیا کہ :’’ وہ جھوٹا جادوگر ہے

آیت ۴:  وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَآءَہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ: ’’اور انہیں بڑا تعجب ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے‘‘

         وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ : ’’اور کافر کہتے ہیں کہ یہ ساحر ہے‘ کذاب ہے۔‘‘

        یہ بہت سخت الفاظ ہیں ‘ لیکن قرآن نے مشرکین ِمکہ ّکے قول کے طور پر انہیں جوں کا توں نقل کیا ہے۔ ان الفاظ سے دراصل حضور کی مخالفت کی اس کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت مکہ کے ماحول میں پائی جاتی تھی۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے یہ معلومات اپنے حافظے میں پھر سے تازہ کر لیں کہ مکی سورتوں کے پچھلے گروپ کی آٹھ سورتیں (الفرقان تا السجدۃ) اور زیر مطالعہ گروپ کی تیرہ سورتیں (سبا تا الاحقاف) ۴ نبویؐ سے ۸ نبویؐ کے زمانے میں نازل ہوئیں۔ ان میں سے سورۃ الصّٰفّٰت البتہ اس دور کی سورت نہیں ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آیات ( پانچ رکوعوں میں ۱۸۲ آیات ہیں اور ایک رکوع میں ۵۳ آیات بھی ہیں ) اور تیز ردھم سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورت ہے۔ بہر حال ان سورتوں کا نزول جس دور (۴ تا ۸ نبویؐ) میں ہوا‘ اس دور میں حضور کی مخالفت بہت شدت اختیار کر چکی تھی اور اسی نسبت سے آپؐ پر ہونے والے حملوں کی نوعیت میں بھی تبدیلی آ چکی تھی۔ ابتدا میں تو اکثر لوگوں نے آپؐ کی باتوں پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے اس زمانے میں اگر کوئی شخص آپؐ کی شان میں گستاخی کرتا تو وہ آپؐ کو مجنون وغیرہ کہہ دیتا‘ بلکہ ابتدا میں تو بعض لوگوں کے ہاں اس حوالے سے آپؐ کے ساتھ ہمدردی کا انداز بھی پایا جاتا تھا۔ اُس وقت بعض لوگ توواقعی سمجھتے تھے کہ غارِ حرا میں راتیں گزارنے کی وجہ سے آپؐ پر کوئی آسیب وغیرہ آ گیا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے آپؐ سے بہت ہمدردی کے انداز میں کہا تھا کہ اے میرے بھتیجے! عرب کے بہت سے کاہنوں اور عاملوں کے ساتھ میرے تعلقات ہیں‘ اگر تم کہو تو میں ان میں سے کسی کو بلا کر تمہارا علاج کرا دوں۔ البتہ جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ وہ آواز جس کو وہ محض ایک شخص کی پکار سمجھتے تھے اب گھر گھر میں گونجنے لگی ہے اور جس تحریک کو انہوں نے ایک مشت ِغبار سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا اب وہ ایک طوفان کا روپ دھار کر ان کے پورے معاشرے کو زیر و زبر کرنے والی ہے تو ان کی مخالفت میں بتدریج شدت آتی گئی۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ (سٰحِرٌ کَذَّابٌ) ایسے ہی شدید مخالفانہ جذبات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ 

UP
X
<>