April 25, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 3

أَلا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء مَا نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ

یاد رکھو کہ خالص بندگی اُسی کا حق ہے۔ اور جن لوگوں نے اُس کے بجائے دوسرے رکھوالے بنالئے ہیں ۔ (یہ کہہ کر کہ :) ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اﷲ سے قریب کر دیں ۔ اُن کے درمیان اﷲ اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کررہے ہیں ۔ یقین رکھو کہ اﷲ کسی ایسے شخص کو راستے پر نہیں لاتا جوجھوٹا ہو، کفر پر جما ہوا ہو

آیت ۳:  اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ:  ’’آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے۔ ‘‘

        اللہ کے ہاں  صرف دین خالص ہی مقبول ہے ۔ اللہ کو یہ ہر گز منظور نہیں  کہ اُس کا کوئی بندہ اُس کی بندگی بھی کرے اور اپنی بندگی کا کچھ حصہ کسی دوسرے کے لیے بھی مختص کر لے۔ اللہ تعالیٰ بہت غیورہے، وہ شراکت کی بندگی کو واپس اس بندے کے منہ پر دے مارتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میرا بننا ہے تو خالصتاً میرے بنو (یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً)  (البقرہ:۲۰۸)  ’’ اے اہل ایمان! اسلام میں  پورے کے پورے داخل ہو جائو‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام ماننے اور کچھ نہ ماننے کے حوالے سے سورۃ البقرۃ کی اس آیت میں  بہت سخت وعید آئی ہے:

 (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ  وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ)

 ’’تو کیا تم (ہماری)  کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کا انکار کر دیتے ہو؟تو نہیں  ہے کوئی سزا اس کی جو تم میں  سے یہ حرکت کرے سوائے دنیا کی زندگی میں  ذلت و رسوائی کے ، اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں  گے شدید ترین عذاب کی طرف۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں  ہے۔ ‘‘

سیاق و سباق کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں  لیکن آج ہمارے لیے بھی اللہ کا حکم اور قانون یہی ہے۔ بلکہ یہ آیت ہمارے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں  آج ہم اپنی تصویر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں  ۔ دنیا کی جس رسوائی کا ذکر اس آیت میں  ہوا ہے وہ آج ہمارے ماتھے پر جلی حروف میں لکھی ہوئی صاف نظر آ رہی ہے۔ اس وقت مسلمان تعداد میں  ڈیڑھ سو کروڑ سے بھی زائد ہیں  مگر عزت نام کی کوئی چیز اس وقت ان کے پاس نہیں  ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں  کسی کو ان سے ان کی رائے پوچھنا بھی گوارا نہیں ۔

        وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآءَ :  ’’اور جن لوگوں  نے اللہ کے سوا کچھ ا ور کو اولیاء بنا یا ہوا ہے‘‘

        مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی:  ’’(وہ کہتے ہیں  کہ)  ہم تو ان کو صرف اس لیے پوجتے ہیں  کہ یہ ہمیں  اللہ سے قریب کر دیں  ۔ ‘‘

        یعنی اصل میں  تو ہم اللہ ہی کو پوجتے ہیں ، جبکہ دوسرے معبودوں  کو تو ہم اللہ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا صرف وسیلہ سمجھتے ہیں ۔

        اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ:  ’’یقینا اللہ فیصلہ کر دے گا ان کے مابین ان تمام چیزوں  میں  جن میں  یہ اختلاف کر رہے ہیں ۔ ‘‘

        اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ:  ’’اللہ ہر گز ہدایت نہیں  دیتا جھوٹے اور نا شکرے لوگوں  کو۔ ‘‘

UP
X
<>