April 25, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 5

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لأَجَلٍ مُسَمًّى أَلا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ

اُس نے سارے آسمان اور زمین برحق پیدا کئے ہیں ۔ وہ رات کو دن پر لپیٹ دیتاہے، اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے، اور اُس نے سورج اور چاند کو کام پر لگایا ہوا ہے۔ ہر ایک کسی معین مدت تک کیلئے رواں دواں ہے۔ یاد رکھو وہ بڑے اقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے

آیت ۵:  خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ:  ’’ اُس نے پیدا کیا ہے آسمانوں  اور زمین کو حق کے ساتھ۔ ‘‘

        یعنی یہ کائنات ایک نہایت منظم، بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے، یہ کوئی کارِ عبث نہیں  ہے۔

        یُـکَوِّرُ الَّــیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُــکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّلــیْلِ:  ’’وہ رات کو لپیٹ دیتا ہے دن پر اور دن کو لپیٹ دیتا ہے رات پر‘‘

        یہ مضمون قرآن حکیم میں  تکرار کے ساتھ آیا ہے ۔ متعدد مقامات پر یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں ، جبکہ بعض جگہوں پر (یُوْلِجُ الَّــیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّــیْلِ)  کے الفاظ بھی آئے ہیں  ۔ بہر حال مقصود اس سے یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ رات اور دن کے الٹ پھیر کا یہ منضبط اور منظم نظام بے مقصد اور عبث نہیں  ہے۔ اس حقیقت کوسمجھنے کے لیے عالم نباتات کے نظامِ تنفس (respiration system)  کی مثال لی جا سکتی ہے جو کلی طور پر دن رات کے ادلنے بدلنے کے ساتھ متعلق و مشروط ہے یا پھرروئے زمین پر پھیلے ہوئے پورے نظامِ زندگی کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس گردشِ لیل و نہار کا مرہونِ منت ہے۔ غرض اس کائنات کی کوئی چیزیا کوئی تخلیق بھی بے مقصد و بے کار نہیں ۔ اور اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو پھر انسان ا ور انسان کی تخلیق کیونکر بے مقصد و بے کار ہو سکتی ہے ، جس کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے؟

        یہاں  پر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں  یہ سوال خود بخود پیدا ہونا چاہیے کہ جب کائنات اور اس کی تمام چیزیں  انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں  تو آخر انسان کا مقصد ِتخلیق کیا ہے؟ ایک حدیث میں  الفاظ آئے ہیں : ((فَاِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَـکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ) )   یعنی دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ بہر حال اگر عقل اور منطق کی عینک سے بھی دیکھا جائے تو بھی آخرت کے تصور کے بغیر انسان کی تخلیق کا کوئی جواز نظر نہیں  آتا۔ خصوصاً انسان کو نیکی اور بدی کا جو شعور ودیعت ہوا ہے وہ ایک ایسی دنیا کا تقاضا کرتا ہے جہاں  اچھائی کا نتیجہ واقعی اچھا نکلے اور برائی کا انجام واقعی برا ہو۔ جبکہ اس دنیا میں  ہر جگہ اور ہر وقت ایسا ہوتا دکھائی نہیں  دیتا۔ چنانچہ انسان کی اخلاقی حس (moral sense)  کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے بھی ایک دوسری زندگی کا ظہور نا گزیر ہے۔

        وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ:  ’’اور اُس نے مسخر کر دیا سورج اور چاند کو۔ ‘‘

        کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی:  ’’یہ سب کے سب چل رہے ہیں  ایک وقت معین تک کے لیے۔‘‘

        اَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ:  ’’آگاہ ہو جائو !وہ زبردست ہے ، بہت بخشنے والا۔ ‘‘

UP
X
<>