April 20, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 1

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللَّهَ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا

اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلادیئے۔ اور اﷲ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو، اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی سے) ڈرو۔ یقین رکھو کہ اﷲ تمہاری نگرانی کر رہا ہے

تمہیدی کلمات

            قرآن مجید میں مکی اور مدنی سورتوں کے جو گروپ ہیں ان میں سے پہلا گروپ پانچ سورتوں پر مشتمل ہے۔ اس گروپ میں مکی سورۃ صرف سورۃ الفاتحہ ہے‘ جو حجم میں بہت چھوٹی مگر معنی و مفہوم اور عظمت و فضیلت میں بہت بڑی ہے۔ اس کے بعد چار سورتیں مدنی ہیں: البقرۃ‘ النساء‘ آل عمران اور المائدۃ۔ یہ چار سورتیں دو دو سورتوں کے دو جوڑوں کی شکل میں ہیں۔ پہلا جوڑا سورۃ البقرۃ اور سورئہ آل عمران کا ہے‘ اور انہیں خود رسول اللہ  نے ایک مشترک نام دیا ہے ’’الزَّھْرَاوَین‘‘۔ ان دو سورتوں میں جو مناسبتیں اور مشابہتیں ہیں وہ ترجمہ کے دوران تفصیل کے ساتھ ہمارے سامنے آتی رہی ہیں۔ ان میں نسبت ِ زوجیت کس اعتبار سے ہے اور یہ ایک دوسرے کی تکمیل کس پہلو سے کرتی ہیں‘ یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے۔   ّ

            اب دو سورتیں سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ جوڑے کی شکل میں آ رہی ہیں۔ ان دو جوڑوں میں ایک نمایاں فرق (contrast) یہ نظر آئے گا کہ سابقہ دو سورتوں میں پہلے حروفِ مقطعات ہیں اور پھر دونوں میں قرآنِ مجید اور کتب ِسماویہ کی عظمت کا بیان ہے‘ جبکہ ان دونوں سورتوں میں اس طرح کی کوئی تمہیدی گفتگو نہیں ہے‘ بلکہ براہِ راست خطاب ہو رہا ہے۔ البتہ نسبت  زوجیت کے اعتبار سے ان میں یہ فرق ہے کہ سورۃ النساء کے آغاز میں صیغۂ خطاب «یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ» (اے لوگو) ہے‘ یعنی خطاب عام ہے‘ اور سورۃ المائدہ کا آغاز ہوتا ہے «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا» کے صیغے سے‘ یعنی وہاں خطاب خاص طور پر انسانوں میں سے اُن لوگوں سے ہے جو ایمان کے دعوے دار ہیں۔ باقی جس طرح سورۃ البقرۃ اور آل عمران نصفین میں منقسم ہیں اس طرح کا معاملہ ان دونوں سورتوں کا نہیں ہے۔

            اپنے اسلوب کے اعتبار سے یہ دونوں سورتیں سورۃ البقرۃ کے نصف ِثانی کے مشابہ ہیں۔ یعنی چند مضامین کی لڑیاں چل رہی ہیں‘ لیکن ایک رسّی کی طرح آپس میں اس طرح بٹی ہوئی اور گتھی ہوئی ہیں کہ وہ لڑیاں مسلسل نہیں بلکہ کٹواں نظر آتی ہیں۔ اگر آپ چار مختلف رنگوں کی لڑیوں کو آپس میں بٹ کر رسّی کی شکل دے دیں تو ان میں سے کوئی سا رنگ بھی مسلسل نظر نہیں آئے گا‘ بلکہ باری باری چاروں رنگ نظر آتے رہیں گے۔ اب اگر آپ اس رسّی کو کھول دیں گے توہر ایک لڑی الگ ہو جائے گی اور چاروں رنگ الگ الگ نظر آئیں گے۔ سورۃ البقرۃ کے نصف ِثانی کے مضامین کے بارے میں میں نے بتایا تھا کہ یہ گویا چار لڑیاں ہیں‘ جن میں دو کا تعلق شریعت سے ہے اور دو کا جہاد فی سبیل اللہ سے۔ شریعت کی دو لڑیوں میں سے ایک عبادات کی اور دوسری معاملات کی ہے‘ جبکہ جہاد فی سبیل اللہ کی لڑیوں میں سے ایک جہاد بالمال یعنی انفاق فی سبیل اللہ اور دوسری جہاد بالنفس کی آخری شکل یعنی قتال فی سبیل اللہ ہے۔    ِ

            یہاں سورۃ النساء میں بھی آپ دیکھیں گے کہ تین لڑیاں اسی طرح آپس میں گتھی ہوئی ہیں اور ان کے رنگ کٹواں نظر آتے ہیں‘لیکن اگر آپ ان سب کو علیحدہ علیحدہ کر لیں تو ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک الگ مضمون بن جائے گا۔ یہ تین لڑیاں خطاب کے اعتبار سے ہیں۔ چنانچہ ایک لڑی تو وہ ہے جس میں خطاب اہل ایمان سے ہے‘ اور سورۃ البقرۃ کی طرح اس کے ذیل میں وہی چار چیزیںآ رہی ہیں: قتال‘ انفاق‘ احکامِ شریعت اور عبادات۔ دوسری لڑی میں خطاب اہل کتاب سے ہے اور اس میں نصاریٰ اور یہود دونوں شامل ہیں۔ پہلی دو سورتوں میں یہود و نصاریٰ کا معاملہ علیحدہ علیحدہ تھا ‘ جبکہ اس سورۃ میں اہل کتاب کے ذیل میں یہ دونوں ملے جلے ہیں۔ تیسری لڑی اس سورئہ مبارکہ کا وہ سب سے بڑا حصہ ہے جو منافقین سے خطاب پر مشتمل ہے‘ لیکن اکثر و بیشتر لوگ وہاں بات سمجھ نہیں پاتے۔ اس لیے کہ صیغہ ٔخطاب وہاں بھی  «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا» ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پورے قرآن میں کہیں بھی «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا» کے الفاظ نہیں آئے۔ صیغہ ٔ خطاب «یٰٓــاَیـُّــہَا الْـکٰفِرُوْنَ» بھی ہے‘ «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا» بھی ہے اور «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا» بھی ‘ لیکن «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا» کہیں نہیں ہے۔ اس لیے کہ منافق بھی قانوناً تو مسلمان ہی ہوتے تھے۔ تو اصل میں یہ پہچاننے کے لیے بڑی گہری نظر کی ضرورت ہے کہ کسی مقام پر «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا» کے الفاظ میں روئے سخن مؤمنین صادقین کی طرف ہے یا منافقین کی طرف۔ اگر یہ فرق نہ کیا جائے تو بعض مقامات پر بڑی غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ مثلاً سورۃ التوبۃ کا یہ مقام ملاحظہ کیجیے: «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَـکُمْ اِذَا قِیْلَ لَـکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ» (آیت: 38) ’’اے اہل ایمان! تمہیں کیا ہو جاتا ہے جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کی راہ میں تو تم زمین میں دھنسے جاتے ہو؟‘‘ اس اندازِ تخاطب سے ایک عام سوء ظن پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید یہ عام مسلمانوں کا حال تھا۔ حالانکہ اس طرزِ عمل کا مظاہرہ مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ منافقین کی طرف سے ہوتا تھا اور وہاں یہ عام مسلمانوں کا نہیں منافقین کا مسئلہ تھا۔ چنانچہ روئے سخن منافقین ہی کی طرف ہے۔ مؤمنین صادقین تو ہر وقت کھلے دل سے مال و جان کی قربانی کے لیے آمادہ رہتے تھے ۔ گویا

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا

تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی!

تو اصل میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس آیت میں روئے سخن کس کی طرف ہے۔

            منافقین سے خطاب کے اعتبار سے یہ سورہ مبارکہ اہم ترین ہے۔ سورۃ البقرۃ میں تو کہیں لفظ نفاق آیا ہی نہیں۔ یہ حکمت ِ خداوندی ہے کہ اس مرض کو پہلے چھپا کر رکھا اور اس کی صرف علامات بیان کر دیں کہ جو کوئی بھی اپنے اندر ان علامات کو دیکھے وہ متنبہ ہو جائے اور اپنے علاج کی طرف متوجہ ہو جائے۔ لیکن جو لوگ اس طرح متوجہ نہیں ہوتے تو معلوم ہوا کہ ان کو اب ذرا نمایاں کرنا ضروری ہے اور بات ذرا عریاں انداز سے کرنی پڑے گی۔ چنانچہ سورئہ آل عمران میں ایک دو جگہ نفاق کا لفظ آ گیا۔ لیکن اب یہاں سورۃ النساء میں سب سے بڑا حصہ منافقین سے خطاب پر مشتمل ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس سورت کی 176 آیات میں سے 55 آیات میں روئے سخن مؤمنین صادقین کی طرف ہے‘ صرف 37  آیات میں اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے مشترک طور پر خطاب ہے‘ جبکہ 84 آیات میں خطاب منافقین سے ہے۔ لیکن یاد رہے کہ جہاں بھی ان سے بات ہو گی «یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا» کے حوالے سے ہو گی۔ اس لیے کہ ایمان کے دعوے دار تو وہ بھی تھے۔ منافق وہی توہوتا ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر حقیقت میں ایمان سے تہی دامن ہوتا ہے‘ چاہے وہ شعوری طور پر منافق ہو چا ہے غیر شعوری طور پر۔   ِ

            سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ کے مابین ایک فرق نوٹ کر لیجیے: انسانی تمدن میں سب سے بنیادی چیز معاشرہ ہے‘ اور معاشرے میں بنیادی اہمیت عورت اور مرد کے تعلق کو حاصل ہے۔ دوسرے یہ کہ معاشرے میں کچھ کمزور طبقات ہوتے ہیں‘ جن کے حقوق کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ یہ مضمون آپ کو سورۃ النساء میں ملے گا۔ عائلی قوانین سورۃ البقرۃ میں تفصیل سے آ چکے ہیں۔ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ازدواج کا جو رشتہ جڑتا ہے جس سے پھر خاندان وجود میں آتا ہے‘ جو معاشرے کی بنیادی اکائی (unit) اور اس کی جڑ اور بنیاد ہے‘ اس سے متعلق تفصیلی ہدایات سورۃ البقرۃ میں آ چکی ہیں۔ سورہ آل عمران اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں شریعت کے احکام نہیں ہیں‘ سوائے اس ایک حکم کے جو سود کے بارے میں آیا ہے: « یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبٰوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً» (آیت: 130)۔ لیکن اب یہاں سورۃ النساء میں تمدن کی معاشرتی سطح پر مزید ہدایات دی جا رہی ہیں ۔ خاص طور پر اُس معاشرے کے جو دبے ہوئے اور پسے ہوئے طبقات تھے ان کی حریت و آزادی‘ ان کے بہتر مقام اور ان کے حقوق کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے۔

            معاشرے میں جنس(sex) کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ کسی معاشرے میں اگر جنسی معاملات پر قدغنیں نہ ہوں اور وہ جنسی فساد کا شکار ہو جائے تو وہاں تباہی پھیل جائے گی۔ اس ضمن میں ابتدائی احکام اس سورۃ میں آئے ہیں کہ ایک اسلامی معاشرے میں جنسی نظم و ضبط (sex-discipline)  کیسے قائم کیا جائے اور جنسی بے راہ روی سے کیسے نمٹا جائے۔ تو اس طریقے سے تمدن کی بنیادی منزل پر گفتگو ہو رہی ہے۔ سورۃ المائدۃ میں تمدن کی بلند ترین منزل ریاست زیر بحث آئے گی اور اعلیٰ سطح پر عدالتی نظام کے لیے ہدایات دی جائیں گی کہ چوری‘ ڈاکہ وغیرہ کا سدّ باب کیسے کیا جائے گا۔ اس ضمن میں حدود و تعزیرات بھی بیان کی جائیں گی۔ باقی سورۃ النساء کی طرح سورۃ المائدۃ میں بھی اہل کتاب سے فیصلہ کن خطاب ہے۔   ِ

            میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ پہلے گروپ کی ان چار مدنی سورتوں میں دو مضمون متوازی چلتے ہیں۔ پہلا مضمون شریعت اسلامی کا ہے اور سورۃ البقرۃ میں احکامِ شریعت کا ابتدائی خاکہ دے دیا گیا ہے‘ جبکہ شریعت کے تکمیلی احکام سورۃ المائدۃ میں ہیں۔ ان سورتوں میں دوسرا مضمون اہل کتاب سے خطاب ہے اور وہ بھی تدریجاً آگے بڑھتے ہوئے سورۃ المائدۃ میں اپنی تکمیلی صورت کو پہنچتا ہے۔ چنانچہ اہل کتاب سے آخری اور فیصلہ کن باتیں سورۃ المائدۃ میں ملتی ہیں۔ ان تمہیدی کلمات کے بعد اب ہم اس سورہ مبارکہ کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔

 آیت 1:    یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَۃٍ: ’’اے لوگو اپنے اس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا‘‘

            دیکھئے معاشرتی مسائل کے ضمن میں گفتگو اس بنیادی بات سے شروع کی گئی ہے کہ اپنے خالق و مالک کا تقویٰ اختیار کرو۔

             وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا: ’’اور اُسی سے اس کا جوڑا بنایا‘‘

            نوٹ کیجیے کہ یہاں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ’’اُس نے تمہیں ایک آدم سے پیدا کیا اور اُسی (آدم) سے اس کا جوڑا بنایا‘‘ بلکہ«نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ» (ایک جان) کا لفظ ہے۔ گویا اس سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ عین آدم  ہی سے ان کا جوڑا بنایا گیا ہو‘ جیسا کہ بعض روایات سے بھی اشارہ ملتا ہے‘ اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ آدم کی نوع سے ان کا جوڑا بنایا گیا‘ جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے۔ اس لیے کہ نوع ایک ہے‘ جنسیں دو ہیں۔ انسان (Human beings) نوع (species) ایک ہے‘ لیکن اس کے اندر ہی سے جو جنسی تفریق (sexual differentiation) ہوئی ہے‘ اس کے حوالے سے اس کا جوڑا بنایا ہے۔

             وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً: ’’اور ان دونوں سے پھیلا دیے (زمین میں) کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں۔‘‘

            ’’مِنْہُمَا‘‘ سے مراد یقینا آدم و حوا ہیں۔ یعنی اگر آپ اس تمدنِ انسانی کا سراغ لگانے کے لیے پیچھے سے پیچھے جائیں گے تو آغاز میں ایک انسانی جوڑا (آدم و حوا) پائیں گے۔ اس رشتہ سے پوری نوعِ انسانی اس سطح پر جا کر رشتہ ٔ اخوت میں منسلک ہو جاتی ہے۔ ایک تو سگے بہن بھائی ہیں۔ دادا دادی پر جا کر cousins کا حلقہ بن جاتا ہے۔ اس سے اوپر پڑدادا پڑدادی پر جا کر ایک اور وسیع حلقہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح چلتے جایئے تو معلوم ہوگا کہ پوری نوعِ انسانی بالآخر ایک جوڑے (آدم و حوا) کی اولاد ہے۔

             وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِہ وَالْاَرْحَامَ: ’’اور تقویٰ اختیار کرو اُس اللہ کا جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو‘ اور رحمی رشتوں کا لحاظ رکھو۔‘‘

            تقویٰ کی تاکید ملاحظہ کیجیے کہ ایک ہی آیت میں دوسری مرتبہ پھر تقویٰ کا حکم ہے۔ فرمایا کہ اُس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ فقیر بھی مانگتا ہے تو اللہ کے نام پر مانگتا ہے‘ اللہ کے واسطے مانگتا ہے‘ اور اکثر و بیشتر جو تمدنی معاملات ہوتے ہیں ان میں بھی اللہ کا واسطہ دیا جاتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں کو جب نمٹایا جاتا ہے تو آخر کار کہنا پڑتا ہے کہ اللہ کا نام مانو اور اپنی اس ضد سے باز آ جاؤ! تو جہاں آخری اپیل اللہ ہی کے حوالے سے کرنی ہے تو اگر اُس کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ جھگڑے ہوں گے ہی نہیں۔ اُس نے اس معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق معین کر دیے ہیں‘ مثلاً مرد اور عورت کے حقوق‘ ربّ المال اور عامل کے حقوق‘ فرد اور اجتماعیت کے حقوق وغیرہ۔ اگر اللہ کے احکام کی پیروی کی جائے اور اس کے عائد کردہ حقوق و فرائض کی پابندی کی جائے تو جھگڑا نہیں ہو گا۔   ّ

            مزید فرمایا کہ رحمی رشتوں کا لحاظ رکھو!جیسا کہ ابھی بتایا گیا کہ رحمی رشتوں کا اوّلین دائرہ بہن بھائی ہیں‘ جو اپنے والدین کی اولاد ہیں۔ پھر دادا دادی پر جا کر ایک بڑی تعداد پر مشتمل دوسرا دائرہ وجود میں آتا ہے۔ یہ رحمی رشتے ہیں۔ انہی رحمی رشتوں کو پھیلاتے جایئے تو کل بنی آدم اور کل بناتِ حوا سب ایک ہی نسل سے ہیں‘ ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔

              اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِـیْـبًا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔‘‘

            یہ تقویٰ کی روح ہے۔ اگر ہر وقت یہ خیال رہے کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے‘ میرا ہر عمل اُس کی نگاہ میں ہے‘ کوئی عمل اُس سے چھپا ہوا نہیں ہے تو انسان کا دل اللہ کے تقویٰ سے معمور ہوجائے گا۔ اگر یہ استحضار رہے کہ چاہے میں نے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں اور پردے گرا دیے ہیں لیکن ایک آنکھ سے میں نہیں چھپ سکتا تو یہی تقویٰ ہے۔ اور اگر تقویٰ ہو گا تو پھر اللہ کے ہر حکم کی پابندی کی جائے گی۔

            یہ حکمت ِ نبوت ہے کہ اس آیت کو نبی اکرم  نے خطبہ ٔنکاح میں شامل فرمایا۔ نکاح کا موقع وہ ہوتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان رشتہ ٔ ازدواج قائم ہو رہا ہے۔ یعنی آدم کا ایک بیٹا اور حوا کی ایک بیٹی پھر اسی رشتے میں منسلک ہو رہے ہیں جس میں آدم اور حوا تھے۔ جس طرح اُن دونوں سے نسل پھیلی ہے اسی طرح اب ان دونوں سے نسل آگے بڑھے گی۔ لیکن اس پورے معاشرتی معاملے میں‘ خاندانی معاملات میں‘ عائلی معاملات میں اللہ کا تقویٰ انتہائی اہم ہے۔ جیسے ہم نے سورۃ البقرۃ میں دیکھا کہ بار بار  «وَاتَّقُوا اللّٰہَ: کی تاکید فرمائی گئی۔ اس لیے کہ اگر تقویٰ نہیں ہو گا تو پھر خالی قانون مؤثر نہیں ہو گا۔ قانون کو تو تختہ مشق بھی بنایا جاسکتا ہے کہ بظاہر قانون کا تقاضا پورا ہو رہا ہو لیکن اس کی روح بالکل ختم ہو کر رہ جائے۔ سورۃ البقرۃ میں اسی طرزِعمل کے بارے میں فرمایا گیا کہ: وَلَا تَتَّخِذُوْا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًاز: (آیت: 231)’’اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنا لو‘‘۔

UP
X
<>