April 20, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 25

وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

اور تم میں سے جو لوگ اس بات کی طاقت نہ رکھتے ہوں کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرسکیں ، تو وہ ان مسلمان کنیزوں میں سے کسی سے نکاح کر سکتے ہیں جو تمہاری ملکیت میں ہوں ، اور اﷲ کو تمہارے ایمان کی پوری حالت خوب معلوم ہے۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔ لہٰذا ان کنیزوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کر لو، اور ان کو قاعدے کے مطابق ان کے مہرادا کرو، بشرطیکہ ان سے نکاح کا رشتہ قائم کر کے انہیں پاک دامن بنایاجائے ؛ نہ وہ صرف شہوت پوری کرنے کیلئے کوئی (ناجائز) کام کریں ، اور نہ خفیہ طور پر ناجائز آشنائیاں پیدا کریں ۔ پھر جب وہ نکاح کی حفاظت میں آجائیں ، اور اس کے بعد کسی بڑی بے حیائی (یعنی زنا) کا ارتکاب کریں تو ان پر اس سزا سے آدھی سزا واجب ہوگی جو (غیر شادی شدہ) آزاد عورتوں کیلئے مقرر ہے۔ یہ سب (یعنی کنیزوں سے نکاح کرنا) تم میں سے ان لوگوں کیلئے ہے جن کو (نکاح نہ کرنے کی صورت میں ) گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر تم صبر ہی کئے رہو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے۔ اور اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے

 آیت 25:   وَمَنْ لَّــمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً اَنْ یَّـنْـکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ: ’’اور جو کوئی تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں سے شادی کر سکے‘‘

             فَمِنْ مَّا مَلَـکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰـتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ: ’’تو وہ تمہاری اُن لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مؤمنہ ہوں۔‘‘

            یہاں’’مُحصَنٰت‘‘دوسرے معنی میں آیا ہے‘ یعنی شریف زادیاں‘ آزاد مسلمان عورتیں۔ اور ظاہر ہے آزاد مسلمان عورتوں کا تو مہر ادا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے اگر کوئی بے چارہ مفلس ہے‘ ایک خاندانی عورت کا مہر ادا نہیں کر سکتا تو وہ کیا کرے؟ ایسے لوگوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ معاشرے میں موجود مسلمان لونڈیوں سے نکاح کر لیں۔

             وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ: ’’اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے۔‘‘

            یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون مؤمن ہے اور کون نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو بھی قانونی اعتبار سے مسلمان ہے دنیا میں وہ مؤمن سمجھا جائے گا۔

             بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ: ’’تم سب ایک دوسرے ہی میں سے ہو۔‘‘

             فَانْـکِحُوْہُنَّ بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ:’’سو اُن سے نکاح کر لو ان کے مالکوں کی اجازت‘سے‘‘

            کسی لونڈی کا مالک اس سے جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے۔ لیکن جب ایک شخص اُس کی اجازت سے اس کی لونڈی سے نکاح کر لے تو اب لونڈی کے مالک کا یہ تعلق منقطع ہو جائے گا۔ اب وہ لونڈی اس اعتبار سے اس کے کام میں نہیں آ سکتی‘ بلکہ اب وہ ایک مسلمان کی منکوحہ ہو جائے گی۔ اسی لیے اُس نکاح کے لیے ’’بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ‘‘ کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اُس وقت کے معاشرے میں بالفعل یہ شکلیں موجود تھیں۔ یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہ شکلیں پیدا کرو۔ غلام اور لونڈیوں کا معاملہ اُس وقت کے بین الاقوامی حالات اور اسیرانِ جنگ کے مسئلے کے ایک حل کے طو رپر پہلے سے موجود تھا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جس معاشرے میں قرآن نے اصلاح کا عمل شروع کیا اس میں فی الواقع کیا صورت حال تھی اور اس میں کس کس اعتبار سے تدریجاً بہتری پیدا کی گئی۔     ّ

             وَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ: ’’اور انہیں ان کے مہر ادا کرو معروف طریقے پر‘‘

              مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ: ’’ان کو حصارِ نکاح میں لا کر‘ نہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے والیاں ہوں‘‘

            ان سے نکاح کا تعلق ہو گا‘ جس میں نیت گھر میں بسانے کی ہونی چاہیے‘ محض مستی نکالنے کی اور شہوت رانی کی نیت نہ ہو۔یہ حصارِ نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں‘ آزاد شہوت رانی نہ کرتی‘پھریں۔    ّ

             وَّلاَ مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ: ’’اور نہ ہی چوری چھپے آشنائیاں کریں۔‘‘

            کسی کی لونڈی سے کسی کا نکاح ہو تو کھلم کھلا ہو۔ معلوم ہو کہ فلاں کی لونڈی اب فلاں کے نکاح میں ہے۔ جیسے حضرت سمیہ  سے حضرت یاسر  نے نکاح کیا تھا۔ حضرت سمیہ ‘ ابوجہل کے چچا کی لونڈی تھیں‘ جو ایک شریف انسان تھا۔ حضرت یاسر  جب یمن سے آ کر مکہ میں آباد ہوئے تو انہوں نے ابوجہل کے چچا سے اجازت لے کر ان کی لونڈی سمیہ  سے شادی کر لی۔ ان سے حضرت عمار  پیدا ہوئے ۔ یہ تین افراد کا ایک کنبہ تھا۔ یاسر‘ عمار بن یاسر اور عمار کی والدہ سمیہ۔ ابوجہل کا شریف النفس چچا جب فوت ہو گیا تو ابوجہل کو اس کنبے پر اختیار حاصل ہو گیا اور اُس نے اس خاندان کو بدترین ایذائیں دی۔   ّ

             فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَـیْنَ بِفَاحِشَۃٍ: ’’پس جب وہ قید ِنکاح میں آ جائیں تو پھر اگر وہ بے حیائی کا کام کریں‘‘

             فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ: ’’تو اُن پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو آزاد عورتوں کے لیے ہے۔‘‘

            لونڈیاں اگر قید ِنکاح میں آنے کے بعد بدچلنی کی مرتکب ہوں تو بدکاری کی جو سزا آزاد عورتوں کو دی جائے گی انہیں اس کی نصف سزا دی جائے گی۔ واضح رہے کہ یہ ابتدائی احکامات ہیں۔ ابھی تک نہ تو سو کوڑوں کی سزا کا حکم آیا تھا اور نہ رجم کا۔ چنانچہ ’’اٰذُوْھُمَا‘‘ کے حکم کی تعمیل میں بدکاری کی جو سزا بھی آزاد خاندانی عورتوں کو دی جاتی تھی ایک منکوحہ لونڈی کو اس سے نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا۔ اس لیے کہ ایک شریف خاندان کی عورت جسے ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو اس کا معاملہ اور ہے اور ایک بے چاری غریب لونڈی کا معاملہ اور ہے۔  ّ

             ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ: ’’یہ اجازت تم میں سے ان کے لیے ہے جن کو گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔‘‘

            مسلمان لونڈیوں سے نکاح کر لینے کی اجازت تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی شہوت اور جنسی جذبے کو روک نہ سکتے ہوں اور انہیں فتنے میں مبتلا ہو جانے اور گناہ میں ملوث ہو جانے کا اندیشہ ہو۔   ّ

             وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّــکُمْ: ’’اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘

            چونکہ عام طور پر اُس معاشرے میں جو باندیاں تھیں وہ بلند کردار نہیں تھیں‘ لہٰذا فرمایا کہ بہتر یہ ہے کہ تم ان سے نکاح کرنے سے بچو اور تعفف اختیار کرو۔    ّ

              وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ: ’’اور اللہ غفور اور رحیم ہے۔‘‘ 

UP
X
<>