April 20, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 3

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ

اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو (ان سے نکاح کر نے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں ، دو دو سے تین تین سے، اور چار چار سے۔ ہاں ! اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم (ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، یا ان کنیزوں پر جو تمہاری ملکیت میں ہیں ۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی میں مبتلا نہیں ہو گے

 آیت 3:    وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْْیَتٰمٰی: ’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم بچیوں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے‘‘

             فَانْـکِحُوْا مَـا طَابَ لَــکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ: ’’تو (انہیں اپنے نکاح میں نہ لاؤ بلکہ) جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو دو دو‘ تین تین‘ چار چار تک۔‘‘

            اس آیت میں ’’یَتَامٰی‘‘ سے مراد یتیم بچیاں اور خواتین ہیں۔ یتیم لڑکے تو عمر کی ایک خاص حد کو پہنچنے کے بعد اپنی آزاد مرضی سے زندگی گزار لیتے تھے‘ لیکن یتیم لڑکیوں کا معاملہ یہ ہوتا تھا کہ ان کے ولی اور سرپرست ان کے ساتھ نکاح بھی کر لیتے تھے۔ اس طرح یتیم لڑکیوں کے مال بھی ان کے قبضے میں آ جاتے تھے‘ اور یتیم لڑکیوں کے پیچھے ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا تھا۔ اگر ماں باپ ہوتے تو ظاہر ہے کہ وہ بچی کے حقوق کے بارے میں بھی کوئی بات کرتے ۔لہٰذا ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم ان کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر تم ان یتیم بچیوں سے نکاح مت کرو‘ بلکہ دوسری عورتیں جو تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔ اگر ضرورت ہو تو دو دو‘ تین تین‘ چار چار کی حد تک نکاح کر سکتے ہو‘ اس کی تمہیں اجازت ہے۔ لیکن تم یتیم بچیوں کے ولی بن کر ان کی شادیاں کہیں اور کرو تاکہ تم ان کے حقوق کے پاسبان بن کر کھڑے ہو سکو۔ ورنہ اگر تم نے ان کو اپنے گھروں میں ڈال لیا تو کون ہو گا جو ان کے حقوق کے بارے میں تم سے باز پرس ُکر سکے؟ ---- منکرین سنت اور منکرین حدیث نے اس آیت کی مختلف تعبیرات کی ہیں‘ جو یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ اس کا صحیح مفہوم یہی ہے جو سلف سے چلا آ رہا ہے اور جو حضرت عائشہ صدیقہkسے مروی ہے۔ مزید برآں تعددِ ازدواج کے بارے میں یہی ایک آیت قرآن مجید میں ہے۔ اس آیت کی رو سے تعددِ ازدواج کو محدود کیا گیا ہے اور چار سے زائد بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے۔     ّ

             فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً: ’’لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر بس کرو‘‘

            یہ جو ہم نے اجازت دی ہے کہ دو دو‘ تین تین‘ چار چار عورتوں سے نکاح کر لو‘ اس کی شرطِ لازم یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اس شرط کو پورا نہیں کر سکو گے اور ان میں برابری نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی شادی کرو‘ اس سے زائد نہیں ۔بیویوں کے مابین عدل و انصاف میں ہر اُس چیز کا اعتبار ہو گا جو شمار میں آ سکتی ہے۔ مثلاً ہر بیوی کے پاس جو وقت گزارا جائے اس میں مساوات ہونی چاہیے۔ نان نفقہ‘ زیورات‘ کپڑے اور دیگر مال و اسباب‘ غرضیکہ تمام مادّی چیزیں جو دیکھی بھالی جا سکتی ہیں ان میں انصاف اور عدل لازم ہے۔البتہ دلی میلان اور رجحان جس پر انسان کو قابو نہیں ہوتا‘ اس میں گرفت نہیں ہے۔

             اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ: ’’یا وہ عورتیں جو تمہاری ملک ِیمین ہوں۔‘‘   ِ

            یعنی وہ عورتیں جو جنگوں میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے اور ان کی تعداد پر کوئی تحدید نہیں ہے۔

              ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلاَّ تَعُوْلُوْا: ’’یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم ایک ہی طرف کو نہ جھک پڑو۔‘‘

            کہ بس ایک ہی بیوی کی طرف میلان ہے اور جیسا کہ آگے آئے گا‘ دوسری معلق ہو کر رہ گئی ہیں کہ نہ وہ شوہر والیاں ہیں اور نہ آزاد ہیں کہ کہیں اور نکاح کر لیں۔

UP
X
<>