March 29, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 32

وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللَّهَ مِن فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 

اور جن چیزوں میں ہم نے تم کو ایک دوسرے پر فوقیت دی ہے، ان کی تمنا نہ کرو، مرد جو کچھ کمائی کریں گے ان کو اس میں سے حصہ ملے گا، اور عورتیں جو کچھ کمائی کریں گے ان کو اس میں سے حصہ ملے گا۔ اور اﷲ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ بیشک اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے

            دوسرا مسئلہ: انسانی معاشرے میں فضیلت کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا تو نہیں بنایا ہے۔ کسی کو خوبصورت بنا دیا تو کسی کو بدصورت۔ کوئی صحیح سالم ہے تو کوئی ناقص الاعضاء ہے۔ کسی کا قد اونچا ہے تو کوئی ٹھگنے قد  کا ہے اور لوگ اس پر ہنستے ہیں۔ کسی کو مرد بنا دیا‘ کسی کو عورت۔ اب کوئی عورت اندر ہی اندر ُکڑھتی رہے کہ مجھے اللہ نے عورت کیوں بنایا تو اس کا حاصل کیا ہو گا؟ اسی طرح کوئی بدصورت انسان ہے یا ٹھگنا ہے یا کسی اور اعتبار سے کمتر ہے اور وہ دوسرے شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ تو بڑا اچھا ہے‘ تو اب اس پر کڑھنے کے بجائے یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس پر صبر او رشکر کرے۔ اللہ کا فضل کسی اور پہلو سے بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ ارادہ کرے کہ میں نیکی اور خیر کے کاموں میں آگے بڑھ  جاؤں‘ میں علم میں آگے بڑھ جاؤں۔ اس طرح انسان دوسری چیزوں سے ان چیزوں کی تلافی کر لے جو اسے میسر نہیں ہیں‘ بجائے اس کے کہ ایک منفی نفسیات پروان چڑھتی چلی جائے۔ اس طرح انسان احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اور اندر ہی اندر کڑھتے رہنے سے طرح طرح کی ذہنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔  ذہنی الجھنوں‘ محرومیوں اور ناکامیوں کے احساسات کے تحت انسان اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھتا ہے۔ چنانچہ دیکھئے اس ضمن میں کس قدر عمدہ تعلیم دی جا رہی ہے :  ّ  َ

 آیت 32:   وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ: ’’اور تمنا نہ کیا کرو اُس شے کی جس کے ذریعے سے اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دے دی ہے۔‘‘

 

            َاللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو ان کی خلقی صفات کے اعتبار سے دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جہاں کسی دوسرے کو اپنے مقابلہ میںکسی حیثیت سے بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے‘ اس کے اندر حسد‘ رقابت اور عداوت کے جذبات پیدا کر دیتی ہے۔ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرمائی جا رہی ہے۔ فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو مرد بنایا‘ کسی کو عورت۔ یہ چیز بھی خلقی ہے اور کسی عورت کی مرد بننے یا کسی مرد کی عورت بننے کی تمنا نری حماقت ہے۔ البتہ دنیا میں قسمت آزمائی اور جدوجہد کے مواقع سب کے لیے موجود ہیں۔ چنانچہ پہلی بات یہ بتائی جا رہی ہے:   َ  ّ   ُ

             لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا: ’’مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں گے۔‘‘   َ  ّ

             وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ: ’’اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں گی۔‘‘  

            یعنی جہاں تک نیکیوں‘ خیرات اور حسنات کا معاملہ ہے‘ یا سیئات و منکرات کا معاملہ ہے‘ مرد و زن میں بالکل مساوات ہے۔ مرد نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے اور عورت نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے۔ مسابقت کا یہ میدان دونوں کے لیے کھلا ہے۔ عورت نیکی میں مرد سے آگے نکل سکتی ہے۔  کروڑوں مرد ہوں گے جو قیامت کے دن حضرت خدیجہ‘ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کے مقام پر رشک کریں گے اور ان کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ چنانچہ آدمی کا طرزِ عمل تسلیم و رضا کا ہونا چاہیے کہ جو بھی اللہ نے مجھے بنا دیا اور جوکچھ مجھے عطا فرمایا اس حوالے سے مجھے بہتر سے بہتر کرنا ہے۔ میرا ’’شاکلہ‘‘ تو اللہ کی طرف سے آ گیا ہے‘ جس سے میں تجاوز نہیں کر سکتا: قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہ. (بنی اسرائیل: 84) اور ہم سورۃ البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ:  لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا.  (آیت: 286) لہٰذا میری ’’وسعت‘‘ جو ہے وہ اللہ نے بنا دی ہے۔  ّ   ِ ُ

            سورۃ النساء کی زیر مطالعہ آیت سے بعض لوگ یہ مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورتیں بھی مال کما سکتی ہیں۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں صرف ایک مقام (البقرۃ: 267) پر ’’کسب‘‘ کا لفظ معاشی جدوجہد اور معاشی کمائی کے لیے آیا ہے:  «اَنْفِقُوْا مِنْ طَـیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ»۔ باقی پورے قرآن میں ’’کسب‘‘ جہاں بھی آیا ہے اعمال کے لیے آیا ہے۔ کسب ِحسنات نیکیاں کمانا ہے اور کسب ِسیئات بدیاں کمانا۔ آپ اس آیت کے الفاظ پر دوبارہ غور کیجیے:  لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ.  ’’مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا‘ اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا‘‘۔ تو کیا ایک عورت کی تنخواہ اگر دس ہزار ہے تو اسے اس میں سے پانچ ہزار ملیں گے؟ نہیں‘ بلکہ اسے پوری تنخواہ ملے گی۔ لہٰذا اس آیت میں ’’کسب‘‘ کا اطلاق دُنیوی کمائی پر نہیں کیا جاسکتا۔ ایک خاتون کوئی کام کرتی ہے یا کہیں ملازمت کرتی ہے تو اگر اس میں کوئی حرام پہلو نہیں ہے‘  شریفانہ جاب ہے‘ اور وہ ستر و حجاب کے آداب بھی ملحوظ رکھتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو بھی کمائی ہو گی وہ پوری اس کی ہو گی‘ اس میں اس کا حصہ تو نہیں ہو گا۔ البتہ یہ اسلوب جزائے اعمال کے لیے آتا ہے کہ انہیں ان کی کمائی میں سے حصہ ملے گا۔ اس لیے کہ اعمال کے مختلف مراتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس عمل میں خلوصِ نیت کتنا تھا اورآداب کتنے ملحوظ رکھے گئے۔ ہم سورۃ البقرۃ میں حج کے ذکر میں بھی پڑھ چکے ہیں کہ  «اُولٰٓـئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا» (آیت: 202) یعنی جو انہوں نے کمایا ہو گا اس میںسے انہیں حصہ ملے گا۔ اسی طرح یہاں پر بھی اکتساب سے مراد اچھے یا برے اعمال کمانا ہے۔ یعنی اخلاقی سطح پر اور انسانی عزت و تکریم کے لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں‘ لیکن معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو تقسیم کار رکھی ہے اس کے اعتبار سے فرق ہے۔ اب اگر عورت اس فرق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو‘ مفاہمت پر رضامند نہ ہو‘ اور وہ اس پر کڑھتی رہے اور مرد کے بالکل برابر ہونے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔    ُ

             وَسْألُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہ: ’’اور اللہ سے اس کا فضل طلب کرو۔‘‘

            یعنی جو فضیلت اللہ نے دوسروں کو دے رکھی ہے اس کی تمنا نہ کرو‘ البتہ اُس سے فضل کی دعا کرو کہ اے اللہ! تو نے اس معاملے میں مجھے کمتر رکھا ہے‘ تو مجھے دوسرے معاملات کے اندر ہمت دے کہ میں ترقی کروں۔ اللہ تعالیٰ جس پہلو سے مناسب سمجھے گا اپنا فضل تمہیں عطا فرما دے گا۔ وہ بہت سے لوگوں کو کسی اور پہلو سے نمایاں کردیتا ہے۔   ّ

             اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ ہر شے کا علم رکھتا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>