March 29, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 36

 وَاعْبُدُواْ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا 

اور اﷲ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قریب والے پڑوسی، دُور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ رکھو) ۔ بیشک اﷲ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا

 آیت 36:   وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا: ’’اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ‘‘

            سب سے پہلا حق اللہ کا ہے کہ اُسی کی بندگی اور پرستش کرو‘ اوراُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

             وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا: ’’اور والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کرو‘‘

            قرآن حکیم میں ایسے چار مقامات ہیں جہاں اللہ کے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کا تذکرہ ہے۔ یہ بھی ہمارے خاندانی نظام کے لیے بہت اہم بنیاد ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک ہو‘ ان کا ادب و احترام ہو‘ ان کی خدمت کی جائے‘ ان کے سامنے آواز پست رکھی جائے۔ یہ بات سورہ بنی اسرائیل میں بڑی تفصیل سے آئے گی۔ ہمارے معاشرے میں خاندان کے استحکام کی یہ ایک بہت اہم بنیاد ہے۔

             وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ:’’اور قرابت داروں‘ یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ‘‘

             وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ: ’’اور قرابت دار ہمسائے اور اجنبی ہمسائے کے ساتھ‘‘

            پہلے عام طور پر محلے ایسے ہی ہوتے تھے کہ ایک قبیلہ ایک ہی جگہ رہ رہا ہے‘ رشتہ داری بھی ہے اور ہمسائیگی بھی۔ لیکن کوئی اجنبی ہمسایہ بھی ہو سکتا ہے ۔ جیسے آج کل شہروں میں ہمسائے اجنبی ہوتے ہیں۔

             وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ: ’’اور ہم نشین ساتھی اور مسافر کے ساتھ‘‘

            ایک ہمسائیگی عارضی نوعیت کی بھی ہوتی ہے۔ مثلاً آپ بس میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ آپ کے برابر بیٹھا ہوا شخص آپ کا ہمسایہ ہے۔ نیز جو لوگ کسی بھی اعتبار سے آپ کے ساتھی ہیں‘ آپ کے پاس بیٹھنے والے ہیں‘ وہ سب آپ کے حسن ِسلوک کے مستحق ہیں۔

             وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ: ’’اور وہ لونڈی غلام جو تمہارے ملک ِیمین ہیں (ان کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو)۔‘‘

             اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرًا: ’’اللہ بالکل پسند نہیں کرتا اُن لوگوں کو جو شیخی خورے اور اکڑنے والے ہوں۔‘‘ 

UP
X
<>