April 25, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 49

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ بتا تے ہیں ؟ حالانکہ پاکیزگی تو اﷲ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اور (اس عطا میں) ان پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا

 آیت 49:   اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ: ’’کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ ٹھہراتے ہیں؟‘‘

            یہاں یہود کے اُسی فلسفے کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت پاک باز اور اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ ’’We are the chosen people of the Lord‘‘۔ سورۃ المائدۃ میں ان کا یہ قول نقل ہوا ہے :  نَحْنُ اَبْنٰٓــؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہ: (آیت: 18) یعنی ہم تو اللہ کے بیٹوں کی طرح ہیں بلکہ اس کے بہت ہی چہیتے اور لاڈلے ہیں۔ ان کے نزدیک دوسرے تمام لوگ Goyemsاور Gentiles ہیں‘ جو دیکھنے میں انسان نظر آتے ہیں‘ حقیقت میں حیوان ہیں۔ ان کو تو جس طرح چاہو لوٹ کر کھا جاؤ‘ جس طرح سے چاہو ان کو دھوکہ دو‘ ان کا استحصال کرو‘ ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ سورئہ آل عمران میں ہم ان کا قول پڑھ چکے ہیں:  لَــیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِييّنَ سَبِیْلٌ: (آیت: 75) ان ّاُمیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے‘‘۔ ہم سے ان کے بارے میں کوئی محاسبہ اور کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ جیسے آپ نے گھوڑے کو ٹانگے میں جوت لیا یا ہرن کا شکار کرکے کھا لیا تو آپ سے اس پر کون مؤاخذہ کرے گا؟

             بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ: ’’بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے‘‘

             وَلاَ یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً: ’’اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘

            ان کو اگر پاکیزگی نہیں ملتی تو اس کا سبب ان کے اپنے کرتوت ہیں‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جاتا۔  فـَتِیل دراصل اُس دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کے اندر گٹھلی کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے۔نزولِ قرآن کے زمانے میں جو چھوٹی سے چھوٹی چیزیں لوگوں کے مشاہدے میں آتی تھیں ظاہر ہے کہ وہیں سے کسی چیز کے چھوٹا ہونے کے لیے مثال پیش کی جا سکتی تھی۔ 

UP
X
<>