April 25, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 6

وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا 

اور یتیموں کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں ، تو اگر تم یہ محسوس کر و کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کر دو۔ اور یہ مال فضول خرچی کر کے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں ۔ اور (یتیموں کے سر پر ستوں میں سے) جو خود مال دار ہو وہ تو اپنے آپ کو (یتیم کا مال کھانے سے) بالکل پاک رکھے، ہاں اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریقِ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھالے۔ پھر جب تم ان کے مال انہیں دو تو ان پر گواہ بنالو۔ اور اﷲ حساب لینے کیلئے کافی ہے

آیت 6:   وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ: ’’اور یتیموں کی جانچ پرکھ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔‘‘

             فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا: ’’پھر اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ پاؤ‘‘

            تم محسوس کرو کہ اب یہ باشعور ہو گئے ہیں‘ سمجھ دار ہو گئے ہیں۔

              فَادْفَعُوْآ اِلَـیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ: ’’تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔‘‘

             وَلاَ تَاْکُلُوْہَـآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّــکْبَرُوْا: ’’اور تم اسے ہڑپ نہ کر جاؤ اسراف اور جلد بازی کر کے (اس ڈر سے) کہ وہ بڑے ہو جائیں گے۔‘‘

            ایسا نہ ہو کہ تم یتیموں کا مال ضرورت سے زیادہ اور جلد بازی میں خرچ کرنے لگو‘ اس خیال سے کہ بچے جوان ہو جائیں گے تو یہ مال ان کے حوالے کرنا ہے‘ لہٰذا اس سے پہلے پہلے ہم اس میں سے جتنا ہڑپ کر سکیں کر جائیں۔

             وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ: ’’اور جو کوئی غنی ہو اس کو چاہیے کہ وہ پرہیز کرے۔‘‘

            یتیم کا ولی اگر خود غنی ہے‘ اللہ نے اس کو دے رکھا ہے‘ اس کے پاس کشائش ہے تو اسے یتیم کے مال میں سے کچھ بھی لینے کا حق نہیں ہے۔ پھر اسے یتیم کے مال سے بچتے رہنا چاہیے۔

             وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ: ’’اور جو کوئی محتاج ہو تو کھائے دستور کے مطابق۔‘‘

            اگر کوئی خود تنگ دست ہے‘  محتاج ہے اور وہ یتیم کی نگہداشت بھی کر رہا ہے‘ اس کا کچھ وقت بھی اس پر صرف ہو رہا ہے تو معروف طریقے سے اگر وہ یتیم کے مال میں سے کچھ کھا بھی لے تو کچھ حرج نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم بڑی فطری ہے‘ اس میں غیر فطری بندشیں نہیں ہیں جن پر عمل کرنا نا ممکن ہو جائے۔

             فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَـیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ فَاَشْہِدُوْا عَلَیْہِمْ: ’’پھر جب تم ان کے مال ان کے حوالے کرو تو اس پر گواہ ٹھہرا لو۔‘‘

            ان کا مال و متاع گواہوں کی موجودگی میں ان کے حوالے کیا جائے کہ ان کی یہ یہ چیزیں آج تک میری تحویل میں تھیں‘ اب میں نے ان کے حوالے کر دیں۔

              وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا: ’’اور اللہ کافی ہے حساب لینے کے لیے۔‘‘

            یہ دنیا کا معاملہ ہے کہ اس کے لیے لکھت پڑھت اور شہادت ہے۔ باقی اصل حساب تو تمہیں اللہ کے ہاں جا کر دینا ہے۔ 

UP
X
<>