April 19, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 10

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

اور تم جس بات میں بھی اختلاف کرتے ہو، اُس کا فیصلہ اﷲ ہی کے سپر دہے۔ لوگو ! وہی اﷲ ہے جو میرا پروردگار ہے۔ اُسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، اور اُسی سے میں لَو لگاتا ہوں

آیت ۱۰:  وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ: ’’اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اُس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف ہے۔‘‘

        یعنی تمہارے مابین جو بھی اختلاف ہو اس کے فیصلے کا حق اللہ ہی کے پاس ہے۔ یہاں سے اس سورت کے ’’مضمون خاص‘‘یعنی اقامت دین کی تمہید شروع ہو رہی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں پہلا نکتہ یہ بتایا گیا کہ اس کائنات کا اصل حاکم اللہ ہے اور حاکمیت صرف اور صرف اسی کے لیے ہے:

Sovereignty belongs to HIM and HIM alone

        اس نکتے کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے: 

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے      حكمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری

        آیت کے ان الفاظ کے مفہوم کے مطابق انسانوں کے باہمی اختلافات کے فیصلوں کے لیے اللہ کا حکم آخری حکم کا درجہ رکھتا ہے اور اسی حقیقت کی تعمیل کا نام اللہ کی حاکمیت ہے۔ اگر کسی معاشرے کا پورا نظام اللہ کی حاکمیت کے تحت آ جائے تو ا س کا مطلب یہ ہو گا کہ وہاں اللہ کا دین قائم ہو گیا اور توحید بالفعل اس معاشرے میں نافذ ہو گئی۔ یعنی اللہ کی مرضی اور اس کے قانون کے مطابق باقاعدہ ایک حکومت قائم ہو جانے کا نام ’’اقامت دین‘‘ ہے، جو زیر مطالعہ آیات کا مرکزی مضمون ہے۔

         ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیْ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ: ’’وہ ہے اللہ میرا رب، اُسی پر میں نے ّتوکل کیا ہے اور اُسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔‘‘

UP
X
<>