April 18, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 13

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ

اُس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ طے کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوح کو دیا تھا، اور جو (اے پیغمبر !) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے، اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ تم دین کو قائم کرو، اور اُس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ (پھر بھی) مشرکین کو وہ بات بہت گراں گذرتی ہے جس کی طرف تم اُنہیں دعوت دے رہے ہو۔ اﷲ جس کو چاہتا ہے، چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، اور جو کوئی اُس سے لَو لگاتا ہے، اُسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے

آیت ۱۳:  شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا: ’’(اے مسلمانو!) اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوحؑ کو کی تھی‘‘

        یہ براہِ راست اُمت سے خطاب ہے۔ مکی سورتوں میں چونکہ عام طور پر اہل ایمان کو ’’یٰٓــاَیُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ کے الفاظ سے براہِ راست مخاطب نہیں کیا جاتا اس لیے یہاں جمع کا یہ صیغہ (شَرَعَ لَـکُمْ) استعمال فرمایا گیا ہے۔ مکی سورتوں میں اس حوالے سے ہمیں دوسرا اسلوب یہ بھی ملتا ہے کہ صیغہ واحد میں حضور کو مخاطب کر کے اہل ِ ایمان کو پیغام پہنچایا جا تا ہے۔

         وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی: ’’اور جس کی وحی ہم نے (اے محمد) آپ کی طرف کی ہے، اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کواور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو‘‘

         اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ: ’’کہ قائم کرو دین کو۔‘‘

        اس آیت سے ایک تو یہ معلوم ہوا ہے کہ حضرات نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد ٌرسول اللہ کا، یعنی تمام پیغمبروں کا دین ایک ہی ہے۔ یہی مضمون سورۃ الانبیاء میں اس طرح آیا ہے (اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ) ’’یقینا یہ تمہاری امت، ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں، لہٰذا تم لوگ میری ہی بندگی کرو‘‘۔ یعنی تمام انبیاء ورُسل اور ان کی اُمتوں کا دین ایک ہی تھا۔ ان کے درمیان اگر کوئی فرق یا اختلاف تھا تو وہ شریعتوں میں تھا۔ دوسری اہم بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اقامت دین کا فریضہ ان تمام پیغمبروں کو سونپا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم کو اس سلسلے میں جو حکم ملا تھا اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے کہ تم لوگ ارضِ فلسطین کو فتح کرنے کے لیے جہاد کرو۔ ظاہر ہے اس خطہ پر قبضہ کرنے کا مقصد اللہ کے دین کو وہاں بالفعل نافذ کرنا تھا۔ چنانچہ اقامت دین کی جدوجہد ماقبل امتوں پر بھی فرض تھی۔

         بہر حال اَقِیْمُوا الدِّیْنَ کے حکم کا خلاصہ یہی ہے کہ زبان سے صرف عقیدئہ توحید کا اقرار کر لینا کافی نہیں بلکہ اس عقیدے کا رنگ اپنے اعمال پر بھی چڑھاؤ، اور نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر اپنے معاشرے کی اعلیٰ ترین (ریاستی اور حکومتی) سطح پر اس کی تنفیذ و تعمیل کو یقینی بناؤ۔ واضح رہے کہ مترجمین نے بالعموم (اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ) کا ترجمہ کیا ہے: ’’کہ دین کو قائم رکھو!‘‘ یہ بھی درست ہے، کیونکہ اقامت دین کے حوالے سے کسی معاشرے میں دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو وہاں دین قائم ہے یا قائم نہیں ہے۔ چنانچہ اس حکم کا منشاء یہ ہے کہ اگر دین پہلے قائم ہے تو اسے قائم رکھو اور اگر قائم نہیں ہے تو اسے قائم کرو۔ مثلاً خیمہ اگر کھڑا ہے تو اسے گرنے سے بچانا ہے اور اگر پہلے سے کھڑا نہیں ہے تو اسے کھڑا (erect) کرنا ہے۔

         وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ: ’’اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘

         یعنی تم لوگ اپنے دین کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے نہ کردو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی ایک معاملے میں تو تم اللہ کا حکم مانو اور کسی دوسرے معاملے میں کسی اور کی خوشنودی کے طالب بن جاؤ۔ اسی رویے اور طریقے کو تفرقہ کہا جاتا ہے جس سے یہاں منع کیا جا رہا ہے۔ سورۃ الانعام: ۱۵۹ کے الفاظ (اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ) میں بھی ایسے ہی تفرقے کی طرف اشارہ ہے۔ البتہ فروعی مسائل میں ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، یہ تفرقہ نہیں ہے۔ مثلاً میں اگر رفع یدین کرتا ہوں اور میرے کئی ساتھی امام ابو حنیفہ کے موقف کو زیادہ صحیح سمجھتے ہوئے رفع یدین کے بغیر نماز پڑھتے ہیں تو ایسے اختلاف میں کوئی حرج نہیں، جبکہ بنیادی طور پر دین میں تفریق یا تفرقے کا طرزِ عمل نہ اپنایا جائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور سلفی سب کے سب ایک ہی دین یعنی اسلام کے ماننے والے ہیں۔ اسی طرح مختلف پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے، مثلاًاب شریعت محمدی کا زمانہ ہے، اس سے پہلے شریعت موسوی کا دور تھا اور اس سے پہلے کوئی اور شریعت تھی۔ لیکن یہ نکتہ بہر حال واضح رہنا چاہیے کہ تمام انبیاء و رسل کا دین ایک ہی تھا یعنی اسلام۔

         کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ: ’’(اے نبی!) بہت بھاری ہے مشرکین پر یہ بات جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں۔‘‘

        مشرکین کی زندگی تو اسی تفریق و تقسیم پر چل رہی ہے۔ وہ تو اس نظريے پر عمل پیرا ہیں کہ ’’جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو‘‘۔ ہمارے ہاں بھی ایسی ہی تقسیم پر دنیا کے معاملات چل رہے ہیں کہ جو حکومت کا حق ہے وہ حکومت کو دو اور جو مولوی کا حق ہے وہ مولوی کو دو۔ اور فرض کریں اگر علماء بھی اس تقسیم پر راضی ہو جائیں کہ چلیں ہمارا کام تو چل ہی رہا ہے تو ایسی صورتِ حال میں دین کی تو گویا نفی ہو جائے گی، کیونکہ دین تو اللہ کی کُلّی اطاعت کا نام ہے۔ چنانچہ جس کسی نے بھی دین میں کسی ایسی تفریق یا تقسیم پر اپنے دل کو مطمئن کرلیا اس کا گویا اللہ سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں رہا۔ چنانچہ مشرکین جو اللہ اور بتوں کے درمیاں اپنے ’’دین‘‘ کی تقسیم پر مطمئن ہیں انہیں توحید خالص کی دعوت بری تو لگے گی۔ مشرکین کے اس بغض و عناد کا ذکر سورۃ التوبہ: ۳۳ اور سورۃ الصف: ۹ میں اس طرح ہوا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ. ’’وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر تا کہ غالب کرے اسے ُکل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر، خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے‘‘۔ ظاہر ہے نظامِ توحید کے قیام اور دین حق کے غلبے کی صورت میں مشرکین کے دلوں میں کڑھن تو بہت ہو گی، لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اپنے رسول کو بھیجا ہی اسی لیے ہے کہ وہ اللہ کے دین کو پورے نظامِ زندگی پر غالب کر دے۔

         اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ: ’’اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے) چن لیتا ہے‘‘

        یہ اللہ کی شانِ عطا ہے کہ کبھی کبھی وہ کسی راہ چلتے مسافر کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ صوفیاء کے ہاں اس حوالے سے ’’سالک مجذوب‘‘ اور’’ مجذوب سالک‘‘ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ’’سالک مجذوب‘‘اللہ کے وہ مقرب بندے ہیں جو ’’سلوک‘‘ کی کئی کئی کٹھن منازل طے کر کے قرب و جذب کے مقام تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ ’’صدیقین‘‘ عام طور پر محنت وریاضت کے اسی راستے سے مقامِ قرب تک پہنچتے ہیں۔ ان کے برعکس ’’مجذوب سالک‘‘وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کسی خاص موقع پر بلا تمہید اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ایسے لوگ ’’مقامِ قرب‘‘ پر فائز ہو جانے کے بعد منازلِ سلوک طے کرتے ہیں اور یہ مقام و مرتبہ اکثر و بیشتر ’’شہداء‘‘ کے حصے میں آتا ہے۔ حضرت عمر کو اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اپنی طرف کھینچ لیا تھا، ورنہ اس ’’حسین اتفاق‘‘ سے پہلے نہ تو آپ کا مزاج اس ’’مقامِ شوق‘‘ سے کچھ مطابقت رکھتا تھا اور نہ ہی آپ کے معمولات ومشاغل میں ایسے کسی ’’رجحان‘‘ کا رنگ پایا جاتا تھا۔ (صدیقین اور شہداء کے اصطلاحی مفہوم کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مریم: ۴۱ کی تشریح۔)

         وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ: ’’اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔‘‘

UP
X
<>