April 23, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 37

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ

اور جو بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں ، اور جب اُن کو غصہ آتا ہے تو وہ درگذر سے کام لیتے ہیں

آیت ۳۷:  وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ: ’’اور وہ لوگ کہ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے‘‘

        ظاہر ہے اس مقدس فریضہ کو نبھانے کا حلف اٹھانے والے رضاکار اگر اپنے دامن ِکردار کو ایسی نجاستوں سے بچا کر نہیں رکھیں گے تو وہ اس میدان میں آگے کیسے بڑھ سکیں گے۔ یہی مضمون سورۃ النساء کے اندر ہم ان الفاظ میں پڑھ چکے ہیں (اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُـکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا) ’’اگر تم اجتناب کرتے رہو گے ان بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا جا رہا ہے تو ہم تمہاری چھوٹی برائیوں کو تم سے دور کر دیں گے اور تمہیں داخل کریں گے بہت با عزت جگہ پر‘‘۔ صغائر اور کبائر کے حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک بندئہ مؤمن کو کبائر کے معاملے میں غیر معمولی طور پر حساس ہونا چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں عمومی روش یہ ہے کہ ہم صغائر کے بارے میں تو بہت زیادہ باریک بین بننے کی کوشش کرتے ہیں، چھوٹے چھوٹے مسائل کے بارے میں وضاحتیں اور فتوے بھی طلب کرتے رہتے ہیں، مگر کبائر سے متعلق لاپرواہی برتتے ہیں۔ حالانکہ صغائر تو (اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ) (ھود: ۱۱۴) کے اصول کے تحت ساتھ ہی ساتھ معاف ہوتے رہتے ہیں اور سورۃ النساء کی متذکرہ بالا آیت میں بھی یہی بشار ت دی جا رہی ہے کہ اگر تم لوگ کبائر سے بچتے رہو گے تو تمہارے صغائر ہم خود معاف کر دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود کبائر سے متعلق لا پرواہی اور صغائر کے بارے میں ’’حساسیت‘‘ کا عمومی رویہ ہمارے معاشرے میں ایک متعدی بیماری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس حوالے سے ہماری مشابہت بنی اسرائیل کی اس کیفیت کے ساتھ ہو چکی ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح نے انہیں فرمایا تھا کہ ’’تم لوگ مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہو‘‘۔ بہر حال اللہ کے راستے میں نکلنے والے مجاہدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقویٰ کی روش پر کاربند رہیں اور کبائرو فواحش سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔

         وَاِذَامَا غَضِبُوْا ہُمْ یَغْفِرُوْنَ: ’’اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔‘‘

        غَفَرَ کے معنی ڈھانپ دینے کے ہیں۔ اس معنی میں اس آ ہنی خود کو مِغْفَرکہا جاتا ہے جس سے دورانِ جنگ تلوار وغیرہ کے وار سے بچنے کے لیے سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مغفرت سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی ہے جو بندے کے گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ لہٰذا مؤمنین ِصادقین کا یہاں جو وصف بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ غصے کا اظہار کرنے کے بجائے اسے پی جاتے ہیں۔ اشتعال کی حالت میں وہ کوئی اقدام نہیں کرتے بلکہ اپنے فیصلے ہمیشہ سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور انتقام لینے کے بجائے معاف کرنے کی حکمت عملی کو ترجیح دیتے ہیں۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۳۴ میں بھی متقین کی تعریف میں یہی صفت بیان کی گئی ہے (وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ) کہ وہ اپنے غصے کو پی جانے والے اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے والے لوگ ہیں۔ چونکہ غصہ اور غصے کی کیفیت میں انسان کا اشتعال شیطانی اثرات کی بنا پر ہوتا ہے اس لیے سورۂ حٰم السجدۃ کی آیت ۳۶ میں دی گئی یہ ہدایت غصے اور اس کے منفی اثرات سے بچنے کا بہترین نسخہ ہے (وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ) (آیت: ۳۶) ’’اور اگر کبھی تمہیں شیطان سے کو ئی ُچوک لگنے لگے تو اللہ کی پناہ طلب کر لیا کرو‘‘ --------اب آگے چلیے اگلے وصف کی طرف.

UP
X
<>